انتخابات 2018: سب سے بڑی نامعلوم قوت کون؟

بعد میں آنے والوں کو ہمیشہ یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ اور ان کے آس پاس ہونے والی چیزیں زیادہ اہم ہیں۔ یہ کہ ان کی جنگیں زیادہ خوفناک، ان کی مزاحمت زیادہ عظیم، ان کے دشمن زیادہ بدصورت، ان کے حربے زیادہ نت نئے اور ان کی بداخلاقی زیادہ عروج پر ہوتی ہے۔

اور جنون بھی مثالی۔

ظاہر ہے کہ اس ملک کی تاریخ اس گمان کو زائل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ 4 عظیم مسیحا، کئی پُرتشدد نظریاتی، 25 سال سے بھی کم عرصے میں ایک شرمناک علیحدگی یہاں تک کہ ملک کی پیدائش کے وقت کے حالات، خوشی، سماجی اور سیاسی اتھل پتھل، سب ایک لفظ پر منتج ہوئے: بٹوارہ۔

اس لیے ابھی سے ہی حالات کی رو میں نہ بہہ جائیں۔

مگر تشویش کی بھی ضرورت ہے۔

زبردست بے یقینی، بوکھلاہٹ اور ہاں، وہ خوف جس نے سیاسی نظام کو جکڑ رکھا ہے، صرف ایک خیالی پلاؤ نہیں ہے۔ ہمیں نواز کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ بحران ہے، نہ ہی عمران کے بحران سے انکار کی ضرورت ہے اور نہ ہی بحران کو جاننے کے لیے زرداری کی ضرورت ہے جو بحران سے فائدہ اٹھانے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہیں۔

بحران حقیقی کے ساتھ ساتھ کثیر رخی بھی ہے، اور ہم انتخابات کے جتنا قریب آتے جائیں گے، یہ اتنا زیادہ بگڑتا جائے گا۔ کیوں کہ تمام تر اثراندازی اور مرحلے پر قابو پانے کے حربوں کے باوجود ایک طاقتور مگر نامعلوم عنصر موجود ہے: ووٹر۔

یہ وہ کہانی ہے جو کئی طرح پہلے ہی سنائی جاچکی ہے۔ (ن) لیگ بکھری نہیں ہے، پی ٹی آئی اپنا راستہ بنانے سے رک نہیں رہی، چنانچہ فیلڈ سے ملنے والے سیاسی اشارے بتا رہے ہیں کہ ووٹر تقسیم ہیں اور ایک معلق پارلیمنٹ بنے گی۔

2018ء کا پاکستان 2008ء کا پاکستان نہیں ہے، اور 1998ء کا پاکستان تو بالکل بھی نہیں ہے۔

اس میں سے کچھ باتیں اچھی، بلکہ درحقیقت یقین میں اضافے کا محرک ہیں۔ انتخابات کے دن دھاندلی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے پھر چاہے یہ ڈبے بھرنے کے ذریعے ہو، ٹرن آؤٹ کو دبا کر یا پھر نتائج کو تبدیل کرکے۔

کیوں کہ اب یہ کہنا ممکن ہے، ملک کے جو انتخابات سب سے زیادہ مستقلاً دھاندلی کا شکار ہوئے، وہ ممکنہ طور پر کراچی میں تھے۔ اس لیے نہیں کیوں کہ ایم کیو ایم کو اکثریتی نشستیں نہ حاصل ہوتیں، بلکہ اس لیے کہ پرانی جماعت پورا کنٹرول چاہتی تھی۔

اگر طاقت کے ذریعے 90 یا 100 فیصد نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں تو 60 فیصد کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ بھی کیا ہی دور تھا: منظم انداز میں ڈبوں کی بھرائی، ڈرا دھمکا کر اور تشدد کے ذریعے مخالفین کو دبانا، الیکشن افسران کو اپنے من پسند نتائج لکھوانا۔

اس ہیبت ناک مشین کی بنیاد خوف، بدلے کے یقین پر اور اس عوامی معلومات پر قائم تھی کہ ایم کیو ایم کسی بھی طرح اکثریت لے ہی لے گی۔ چنانچہ کیوں کوئی شخص جان جوکھم میں ڈال کر ایم کیو ایم کو جیت کے حقیقی مارجن یا جیتی گئی نشستوں کی زیادہ قابلِ یقین تعداد تک محدود رکھنے کی کوشش کرتا؟

وہ خوف قومی سطح پر کبھی بھی موجود نہیں رہا، اور بدحواس ترین اندازوں اور سازشوں کے باوجود یہ خوف اب اور بھی کم ہوچکا ہے، اور پھر ہمارے سامنے حقیقی تبدیلی ہے، یعنی معلومات۔

لاکھوں جیبوں میں موجود کیمرے، اسکینڈل کی بھوکی سوشل میڈیا، جانبدار الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں آپ ڈبوں کی منظم بھرائی، ٹرن آؤٹ کو دبانا یا گنتی میں ہیر پھیر کرنا چاہتے ہیں تو قسمت آزما لیں۔

کھیل تو اب قبل از اور بعد از انتخابات مرحلے کے بارے میں ہے۔ انتخابات کے بعد قومی سطح پر صحیح طرح کے امیدواروں کو جمع کرکے ایک قابلِ عمل اکثریت بنانا، خوش قسمت ہوں تو تنہا حکومت اور اگر ضرورت پڑجائے تو اتحاد۔

یہ نارمل حالات میں ناممکن سے کہیں دور ہے اور اگلے انتخابات میں تو تصور سے مکمل طور پر پرے نہیں ہے۔ مگر یہی وہ جگہ ہے جہاں مسئلہ ہے۔ اگر صحیح طرح کے امیدوار قومی سطح پر جمع کر بھی لیے گئے تو بھی کیا ووٹر مدد کو آئیں گے؟

جو بات واضح ہے وہ یہ کہ یہ آپ کے والدین کے زمانے کے ووٹر نہیں ہیں۔ 70ء کی دہائی کے ووٹروں سے ایک بالکل مختلف اور 90ء کی دہائی سے کافی حد تک مختلف دنیا میں جی رہے ہیں۔ زمانے اور ملک میں ہونے والی تبدیلیوں نے یہ یقینی بنا دیا ہے۔

مگر یہ 2008ء کے ووٹروں سے بھی کافی حد تک مختلف ووٹر ہوسکتے ہیں۔

2008ء میں کسی 18 سالہ کے ووٹ ڈالنے کا امکان نہیں تھا کیوں کہ صرف ایک انتخابات پہلے ہی ووٹنگ کی عمر 21 سے کم کرکے 18 کی گئی تھی اور نوجوان عام طور پر سیاست سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ 2018ء میں اس کی عمر 28 سال ہوگی اور اسی عمر میں ووٹنگ ایک سنجیدہ آپشن بن جاتا ہے۔

سسٹم میں نئے ووٹروں کی آمد اور گزشتہ دور کے نوجوان ووٹرز کے بالغ ہونے سے انتخابی حساب کتاب میں بہت زیادہ تبدیلیاں آنا ضروری نہیں ہے۔

مگر اس دور، اس دہائی میں، 2008ء سے 2018ء کے درمیان کچھ غیر معمولی ہوا ہے۔ جمہوری تسلسل، سویلین دور کی 2 پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی ہے، 3 مرتبہ انتخابات وقت پر ہوئے ہیں اور مسلسل دوسری مرتبہ پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل ہو رہا ہے، مگر یہ بات سب جانتے ہیں۔

جس چیز پر کم توجہ ہے، وہ سیاست سے انتہائی درجے کی وابستگی اور اس میں شرکت ہے، خاص طور پر ان جگہوں میں جہاں یہ انتخابی طور پر اہم ہے۔ 2013ء میں ٹرن آؤٹ تاریخی سطح پر تھا۔ 55 فیصد کا قومی ٹرن آؤٹ عام طور پر 35 سے 45 فیصد کے بیچ رہنے والے ٹرن آؤٹ سے کہیں زیادہ بلند تھا۔

مگر پنجاب میں 2013ء میں ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا، جو 2008ء سے 12 فیصد زیادہ تھا۔

اس بات کے کافی اشارے موجود ہیں کہ 2018ء میں یا تو 2013ء کی سطح برقرار رہے گی یا پھر خاص طور پر پنجاب میں نئے ریکارڈ قائم ہوں گے۔ لودھراں میں فروری کا ضمنی انتخاب غیر معمولی نہیں تھا۔ جیتنے والے کو 6 ہندسوں میں پڑنے والے ووٹ اور 2013ء میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کو پڑنے والے مجموعی ووٹوں کی تعداد کا کم و بیش اتنا ہی ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ اس مرتبہ انتخابات میں زبردست توانائی دیکھنے میں آئے گی۔

چنانچہ یہ بات کافی حد تک سمجھ آتی ہے کہ 2018ء میں تاریخی ٹرن آؤٹ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

نواز شریف ایک سال سے دوروں پر دورے کیے جا رہے ہیں۔ عمران نے بھی پی ٹی آئی کی مسلسل مہم کو جاری رکھا ہے۔ اکتوبر 2011ء کے بعد سے ایسا شاید ہی کوئی عرصہ ہو جب پی ٹی آئی مکمل طور پر سرگرم نہ رہی ہو۔

اب اس مکسچر میں شہباز نے بھی خود کو شامل کرلیا ہے۔

جمہوری تسلسل کے 10 سالوں بعد جب انتخابات کے روز دھاندلی کا راستہ تقریباً بند ہوچکا ہو، ایسے میں بالکل بدل چکے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ ڈالنا ماہر ترین افراد کو بھی یہ یقین نہیں کرنا چاہیے کہ ووٹر ان کی مرضی کا ردِ عمل دیں گے۔

ٹرن آؤٹ نے شاید اب تک ایک طاقتور نامعلوم عنصر کو آشکار کردیا ہے: یعنی خود ووٹر۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے