ریحام خان کی کتاب کو کاؤنٹر کرنے کے لیے عمران خان نے ہفتہ پہلے پیش بندی کی تھی .

ریحام خان کی کتاب کو زیر بحث لانا تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی ایڈوانس حکمت عملی کا حصہ تھا ۔ اہم ذریعے کی خبر کے مطابق ایک ہفتہ پہلے بنی گالہ میں تحریک انصاف کے اہم رہ نماؤں کا اجلاس ہوا. اجلاس میں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کتاب کی کاپی کا مواد اپنی ٹیم کے ساتھ شئیر کیا اور مختلف لوگوں کی ذمہ داری لگائی گئی کہ میڈیا میں جارحانہ انداز میں اس کتاب کو اشاعت سے پہلے ہی کاؤنٹر کیا جائے . عمران خان کے پاس کتاب کی پورا مواد موجود ہے ۔ اس اجلاس میں کتاب کو کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی بنا کر مختلف لوگوں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی کہ کتاب چھپنے سے پہلے ہی اس کتاب کی اہمیت کو کم یا ختم کر دیا جائے ۔

تاہم سوال تو یہ ہے کہ کیا ریحام خان کی کتاب انتخابات میں تحریک انصاف کا نقصان پہنچا سکتی ہے ؟

کتاب کے اقتباسات کے حوالے سے گفتگو کی جا رہی ہے تاہم یہ بات انتہا ئی اہم ہے کہ ایک قدامت پسند اور روایت پرست معاشرے میں ریحام خان کی کتاب کے انکشافات عمران خان کی شخصیت اور سیاسی حیات کے لیے ممکنہ طور پرنقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

عمران خان اس لحاظ سے اس سے پہلے بھی کئی بار تنقید کا ہدف بن چکے ہیں ۔ ریحام خان کے مطابق ان کی عمران خان سے شادی سات محرم الحرام کو ہوئی تھی ، روایتی طبقہ محرم الحرام میں شادیوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اسی طرح عمران خان کی تیسری شادی بھی اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بنی جس میں ایام عدت میں ان کے نکاح کا معاملہ زیر بحث آیا تھا ۔

سیاسی میدان میں طے شدہ وفاداریاں تو تبدیل نہیں ہوتیں تاہم عام طبقے پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔ عمران خان کی اہلیہ کے سابق دیور نے اسی وجہ سے تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی ۔

اگر چہ ابھی تک ریحام خان کی کتاب کے پیچھے مسلم لیگ ن کا تعلق ثابت تو نہیں کیا جا سکا تاہم پاکستان سیاست ایک بار پھر نوے کی دھائی میں پہنچ چکی ہے جب ایک دوسرے پر ذاتی حملے کر کے کیچڑ اچھالا جا تا تھا ۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہو گا کہ اس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کیا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں ؟؟؟ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جو شور سنائی دے رہا ہے ، اس کی گونج میں کسی پگڑی محفوظ ہے اور نہ کسی کی چادر کی کوئی عزت ہے ۔

کتاب کا جو مواد سامنے آرہا ہے اس کے مطابق تو خود ریحام خان نے بھی خود کو بیچ بازار ایک سوالیہ مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ اس موقع پر اہل سیاست کو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کتاب کو زیر بحث لانے کے بجائے اپنے سیاسی دستور اور منشور کو زیر بحث لانا چاہیے ۔ اس قسم کی حرکتوں سے پہلے بھی پاکستانی سیاست جگ ہنسائی کا سبب بنی اور اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو مستقبل میں یہ دروازہ بند ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ اب نظریاتی ہو گئے ہیں تو ان پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ سیاسی فضا کو مزید آلودہ ہو نے سے بچائیں ۔ مسلم لیگ ن اگر آگے بڑھ کر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کارکنان ، سوشل میڈیا ٹیم اور سیاسی رہ نماؤں کا اس کتاب پر بات کرنے سے روک دے تو یہی بہتر عمل ہو سکتا ہے ۔

اسی طرح عمران خان صاحب بھی اپنے ترجمانوں کو ذرا قابو میں رکھیں تو انتخابات کی فضا سازگار ہو سکتی ہے ۔ کھیل کے میدان کے تماشائیوں میں اور سیاسی میدان کے کھلاڑیوں میں فرق ہوتا ہے اور اس لکیر کو عبور کر کے آپ تاریخ میں اپنے چہرے پر کالک تو مل سکتے ہیں لیکن کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے ۔

یہ نہ ہو کہ انتخابی مہم کے دوران کسی کا ہاتھ کسی کے گریبان میں ہو ، کسی کا جوتا کسی کی دستار پر ، رہ نماؤں کی پگڑیاں جلسہ گاہوں میں اچھل رہی ہوں ۔ ایک دوسرے سے سیاسی میدان میں شائستگی کے ساتھ اختلاف کیجئے ، ایسا کام نہ کیجئے کہ قوم کو انتخابات میں سیاست کا میدان اس حمام جیسا لگے جس میں کسی کی قمیص نہیں اور کسی کی شلوار غائب ہے ۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے