کیا ہم اپنے ماحول کوبچاسکتے ہیں؟

جب ہم کسی ملک کی فضا کو صاف ستھرا اور وہاں کے باسیوں کو توانا اور صحت مند دیکھتے ہیں ۔ تو یہ خیال ہمارے ذہن میں ا جاتا ہے کہ یہ ملک اپنے ماحولیاتی نظام کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے ۔ گزشتہ ہفتے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اسلام اباد کے ایک نجی ہوٹل میں سیمینار منعقد ہوا جس میں کچھ نامور صحافیوں سمیت اس ناچیز کو بھی سیمینار میں شرکت کی دعوت ملی ، ہم سیمینار حال میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس سیمینار میں صرف پاکستانی ماہرین ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاسے طلبا وطلبات اور ماہرین موسمیات تشریف لائے ہوئے تھے ۔

خیر ہم اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تو وزیر موسمیات مشاہد خان جو اس سیمینار کے مہمان خصوصی تھے نے سامنے اسٹیج پر لگی صدارت کی کرسی سنبھالی ،سیشن شروع ہوا تو مختلف ممالک سے آئے ہوئے ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے اپنے ملک کا موقف پیش کیا ۔

اس سیمینار میں سب سے زیادہ اگر مجھے کسی کی ماہر موسمیات کی تقریر اچھی اور معلوماتی لگی تو وہ تھے بھارت کے ڈاکٹر ارجن کمار جن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہماری روزمرہ زندگی کے ساتھ جانوروں اور ہمارے زراعت سمیت دیگر کئی چیزوں پر اثر انداز ہوکر زندگی کو مزید مشکل میں ڈال رہی ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ، جنگلات کو تیزی سے کاٹا جارہا ہے حالانکہ انہی جنگلات کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوتی ہے اور ہم انسانوں کو تازہ آکیسیجن ملتا ہے ۔

مجھے اس سیمینارمیں جب علم ہوا کہ پاکستان ایشیا کے ایک چھوٹے سے ملک نیپال سے بھی جنگلات کے معاملے میں پیچھے ہیں تو بڑا دکھ ہوا . یعنی بچپن سے جو کہانیاں ہمیں سکولوں میں پڑھائی گئیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور وطن عزیز کی اتنا اتنا رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، زراعت کا تو اب خدا حافظ ، بے چارے ہمارے کسان تو فاقوں اور خود کشیوں پر مجبور ہیں. ان نکمے حکمرانوں کے غلط پالیسیو‌ں کے ساتھ ساتھ ساتھ ٹمبر مافیا بھی
جنگلات کی کٹائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا .

خیر سیشن احتتام کے قریب تھا تو میں نے وزیر موسمیات مشاہد خان سے سوال کیاکہ جناب ان ممالک کا تو موقف سامنے آ گیا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے وہ کیا کیا اقدامات کر رہے ہیں پر جناب ہمیں بھی بتائیں کہ آپ لوگ اس ملک کی ماحولیاتی تبدیلوں کے حوالے سے کیا اقدامات کررہے ہیں؟ یا کرنے جارہے ہیں‌؟موصوف کو شاید میرا یہ سوال ناگوار گزرا اور جناب ٹال مٹول کرکے سیمینار حال سے کھِسک گئے ، یہ ہمارے حکمرانوں کا حال ہے ، صرف لاکھوں کروڑوں روپے کے اخراجات کر کے سیمینار منعقد کرانے اور دوسرے ممالک میں جاکر عوام کے پیسے پرعیاشی کرکے یہ لوگ کیا فارمولہ لے اتے ہیں؟

یہ چھوٹا سا طبقہ ملک اور عوام کے نہیں بلکہ صرف کرسی کے ساتھ مخلص ہے ۔ یہ لوگ صرف مصیبت آنے پر عوام کیساتھ غریبوں والا منہ بنا کے صرف تصویر ہی کھینچ لیتے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ نے اپنے ماحولیاتی پروگرام انیس سو اناسی میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا ،جو سمندر میں پانی کی بلند ترین سطح کے باعث خطرات سے دوچار ہیں، سائنس دانوں کے مطابق واٹر ٹاور آف ایشیا ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم قطب شمالی و قطب جنوبی کے بعد برف کے سب سے بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں اور یہی پہاڑی سلسلے دریائے سندھ میں کی روانی میں ضامن بھی ہیں ۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق پاکستان کو دو طرح کے سنگین خطرات لاحق ہے ۔ شمال میں درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث گلیشئیر تیزی سے پگھل رہے ہیں تو جنوب میں سمندری پانی کی سطح بلند ہورہی ہے ، دوسری جانب ماہرین ماحولیات متعدد بار اس خدشے کا اظہار بھی کرچکے ہیں ،کہ اگر بروقت ان حالات سے نمٹنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو سمندر کی سطح بلند ہونے سے دو ہزار ساٹھ تک دو کروڑ کے زائد آبادی کا شہر کراچی بھی زیر آب اسکتا ہے

دوسری جانب پاکستان کی معشیت کا زیادہ تر انحصار پانی پر ہے ، جبکہ ملک کے زیر زمین پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں اور ملک میں پینے کے صاف پانی کا معاملہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی آبادی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، اس بارے میں اقوام متحدہ پہلے سے ہی ریڈ الرٹ جاری کرچکی کہ اگر حکومت پاکستان نے آبادی کو روکنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا تو پاکستان کی آبادی دو ہزار پچاس میں تین سو ملین سے تجاوز کرجائیگی۔ جس کی وجہ سے ملک کے درجہ حرارت میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگا

پاکستان میں اس وقت مختلف بیماریوں میں اضافہ کی وجہ ہے آلودہ فضااور اس الودگی کا سبب بن رہا ہے فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھاکر فضا کو مزید زہریلی بنا رہا ہے ،پر ہمارے حکمرانوں نے نہ ماضی سے کچھ سیکھا .ہاں عمران خان کے اس عمل کو ضرور داد دوں گا کہ وہ کے پی کے میں بلین ٹری کا منصوبہ زیر عمل لائے.اگر ہمارا حکمران طبقہ عمران خان کے بلین ٹری منصوبے کو تنقید کے بجائے جنگلات بچاو اور درخت لگاو کی کوئی بھی مہم اپنے اپنے صوبوں میں زیر عمل لے آتے تو شاٰد آج ملک کا ماحول قدرے انسان دوست ہوتا .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے