تشکیک

ان دنوں مولانا مودودی کی دو باتیں کثرت سے یاد آتی ہیں:
پہلی بات: اگر باڑ خود کھیت کو کھانا شروع کر دے تو پھر کھیت کو بچایا نہیں جا سکتا۔
دوسری بات: غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔

زرداری اور نواز شریف کے بعد کیا اب عمران خان کی باری ہے؟ مقبول قیادت میں، وہ آخری نام ہیں جو ان دنوں ساکھ کے شدید بحران کا شکار ہیں۔ ان کے بعد جو بچ جائیں گے، وہ صرف الیکٹ ایبلز ہوں گے۔ وہ بے ضرر مخلوق جو موم کی ناک ہے۔

تمام تر سیاسی قیادت اگر اخلاقی قوت سے محروم ہے تو یہ قوم کس دروازے پر دستک دے؟ کیا سیاست کی بساط الٹ دی جائے؟

اِس منظر کی تشکیل میں اہلِ سیاست کا پورا حصہ ہے۔ اقتدار کی بے لگام چاہت میں، وہ اپنے ہی پاؤں کاٹنے پر تیار بیٹھے ہیں۔ ان کی کوششوں کا ثمر اپاہجوں کی ایک طویل قطار ہے: اخلاقی اپاہج‘ جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خود شکستگی کا عجیب منظر ہے۔ غالب نے جیسے انہی کی تصویر کھینچی ہے:

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا!
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

سیاست دانوں کی ایک نسل سے غلطی ہوئی۔ ایک فوجی آمر کا ساتھ دیا۔ یہ غلطی بانجھ نہیں رہی۔ اہلِ سیاست کی ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے غیر سیاسی قوتوں کو اپنا کندھا پیش کیا۔ تادمِ تحریر عمران خان اس کے آخری نمائندہ ہیں۔ دیکھیے کتنے دن بھرم قائم رکھتے ہیں۔ ان کی دستار کے بل تیزی سے کھل رہے ہیں یا کھولے جا رہے ہیں۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

اس وقت گندگی ہے اور پراگندگی بھی۔ سارا سیاسی منظر الجھ گیا ہے۔ میں تسلسل کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ سیاست محض اقتدار کا کھیل نہیں ہوتا۔ اس میں اقدار کو بھی قائم رکھنا اور فروغ دینا ہوتا ہے۔ اقتدار باقی نہیں رہتا مگر اقدار باقی رہتی ہیں۔ انہی کی روشنی مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔ قائد اعظم نے مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگرس کا ‘شو بوائے‘ کہہ دیا۔ لوگوں نے اپنا سا زور لگا دیا کہ مولانا جواب دیں۔ وہ ان کی زبان نہیں کھلوا سکے۔ ابوالکلام کی قائم کردہ روایت ہے جس نے ہمیں ابولاعلیٰ اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے لوگ دیے۔

عمران خان نے بھٹو صاحب سے ایک ہی بات سیکھی: سیاسی مخالفین کی تضحیک۔ 2013ء کے بعد نواز شریف نے جس سیاسی رواداری کی بنیاد رکھی اسے پامال کر دیا۔ ہیجان پیدا کیا اور شریف خاندان کے خلاف وہ آخری سطح تک گئے۔

جیسے تیسے، اس خاندان نے اپنی بقا کا سامان کر لیا۔ اب عمران خان کی باری ہے۔ اب انہیں بقا کا چیلنج درپیش ہے۔ دنیا میں ہر آدمی کے لیے ایک خاص آزمائش ہے۔ سماجی اخلاقیات کے اعتبار سے کمزور معاشروں میں دوسرے اسی کمزوری پر نظر رکھتے ہیں۔ انسان اگر خود احتسابی پر آمادہ نہ ہو تو یہ کمزوری مخالفین کا ہتھیار بن جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کو دراز ہونا ہے یا اسے کہیں رکنا ہے؟ اہلِ سیاست کو اب ایک فیصلہ کرنا ہے: سابقین کی غلطی کو دھرانا ہے یا ایک نئے دور کا آغاز کرنا ہے؟ اگر سب کپڑے اتارنے کا کام کریں گے تو پھربرہنگی ہی سیاست کا مقدر بنے گی۔غیر سیاسی قوتیں تو یہی چاہیں گی مگر کیا اہلِ سیاست بھی یہی چاہتے ہیں؟ عمران خان کے خلاف اٹھنے والی اس نئی مہم کی تردید کو، کیا اس تبدیلی کا نقطۂ آغاز بنایا جا سکتا ہے؟

جی ہاں، اگر اہلِ سیاست کتاب پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیں۔ اہلِ صحافت بھی ساتھ دیں اور یہ کسی چینل پر زیرِ بحث نہ آئے۔ سیاست کو اب اقدار کی ضرورت ہے۔ سیاست اسی صورت میں بچ سکتی ہے۔ یہ کام کسی دوسرے کو نہیں، خود اہلِ سیاست کو کرنا ہو گا۔ وہ ایک کشتی کے مسافر ہیں۔ اس میں چھید ڈالنے سے وہ اپنی ہلاکت کا سامان کریں گے۔

سیاست کو دو بڑے مسائل درپیش ہیں۔ ایک تشدد اور دوسرا غیر شائستگی۔ مجھے دکھائی یہ دیتا ہے کہ یہ سلسلہ اگر رکا نہیں تو انتخابات کا کوئی امکان بچے گا نہ سیاسی ارتقا کا۔ طاہر القادری اور شیخ رشید جیسے کردار معاملات کو اسی سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر سیاسی ماحول کو شائستہ بنانے کی کوشش نہ کی گئی اور تشدد بھی روا رہا تو ہم جان سکتے ہیں کہ کس طرح کا منظر ہمارے سامنے ہو گا۔ پرانی غلطی کو اب بانجھ بنانا ہو گا۔

سب سے پہلے اہلِ سیاست کو مل کر ایک ضابطۂ اخلاق بنانا ہے۔ وہ یہ طے کر لیں کہ افراد کا ذاتی کردار زیرِ بحث نہیں آئے گا۔ دوسروں کی سیاسی پالیسی اور پروگرام پر بات ہو گی۔ سیاست میں ان کا کردار زیرِ بحث آئے گا۔ قومی معاملات پر اختلاف ہو گا۔ دوسرا یہ کہ شائستگی کو ممکن حد تک پیشِ نظر رکھا جائے گا۔ اختلاف کا مطلب دوسروں کی توہین نہیں ہو گی۔ اگر کسی کے خلاف کوئی الزام ہے تو اسے عدالت کے حوالے کیا جائے گا۔

ضابطۂ اخلاق میں سب سے اہم، جمہوری اقدار کے باب میں کسی غیر سیاسی قوت کا ساتھ نہ دینے کا عزم ہے۔ کوئی سیاسی جماعت کسی غیر سیاسی قوت کے کسی پروگرام کا حصہ نہیں بنے گی اور سیاسی اختلافات کو سیاست ہی کے میدان میں حل کیا جا ئے گا۔ اختلاف کو اس طرح دشمنی میں نہیں بدلا جائے گا کہ سیاسی عمل کا مستقبل ہی مخدوش ہو جائے۔

اگر تلخی کی موجودہ فضا قائم رہی تو آنے والے دنوں میں تشدد اور غیر شائستگی میں اضافہ ہو گا۔ مقبول قیادت کو بے توقیر کرنے کا عمل آگے بڑھے گا۔ عمران خان اس مہم کا تازہ ہدف ہیں۔

میرے نزدیک چوروں اور ڈاکوئوں کے پارلیمنٹ تک پہنچنے کے پروپیگنڈے کو بھی مہمیز دی جائے گی اور اس ساری مہم کا حاصل انتخابات کا التوا ہو گا۔ انتخابات کا یہ التوا کسی سیاسی قوت کے حق میں نہیں۔

کیا اس مرحلے پر یہ ممکن ہے جب طبلِ جنگ بج چکا اور فوجیں صف آرا ہو چکیں؟ جب تیر، ترکش سے نکل اور کمانوں کے حوالے ہو چکے؟ بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو پھر جنگ خود ہی فیصلہ کرتی ہے۔ جنگ کی اپنی حرکیات ہیں۔ اس میں اخلاقیات بے معنی ہوتی ہیں۔ پھر صرف انتظار کیا جاتا ہے کہ فتح کے شادیانے کون بجاتا ہے۔ اس کا سہرا کس کے سر سجتا ہے؟ یہ جنگ مگر ایسی ہے کہ جو جاری رہی تو سب ہار جائیں گے، انتخابات کے التوا کا مطلب اہلِ سیاست کا مقدمہ ہارنا ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں اس کے لیے تیار ہیں؟

جنگ کو روکا جا سکتا ہے اگر سپہ سالار ہمہ جہتی سوچ رکھتے ہوں۔ وہ میدانِ جنگ سے ادھر ادھر دیکھ سکیں۔ ہمارے پاس ”میثاقِ جمہوریت‘‘ نام کی ایک دستاویز موجود ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر جمہوری سفر کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ صاف، شفاف اور بروقت انتخابات کا ایک ہی راستہ ہے: اہلِ سیاست کا کسی ضابطۂ اخلاق پر اتفاقِ رائے۔

نون لیگ کو اس کے لیے پہل کرنی چاہیے۔ وہ اعلان کرے کہ عمران خان کے بارے میں آنے والی کتاب، اس کی انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہو گی۔

مجھے خوشی ہے کہ ابھی تک اس معاملے میں نواز شریف صاحب کا ردِ عمل باوقار ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی طرح کا عہد تمام جماعتوں کو کرنا ہو گا۔

اس اتفاق کے بعد، سب کو مل کر اعلان کرنا ہو گا کہ انہیں انتخابات میں التوا منظور نہیں۔ سیاست دانوں کی پہلی نسل نے غیر سیاسی قوتوں کا جس طرح ساتھ دیا، وہ ایک غلطی تھی، کوئی موروثی بیماری نہیں جس سے جان نہ چھڑائی جا سکے۔ اہلِ سیاست چاہیں تو اس غلطی کو بانجھ بنا سکتے ہیں۔ غلطی کی اصلاح ہی غلطی کو بانجھ بنانا ہے۔

ایک درخواست ریاستی اداروں سے بھی۔ باڑ سے یہی توقع ہے کہ وہ کھیت کی حفاظت کرے گی۔

سیاسی عمل کا تسلسل ہی کھیت کو بچا سکتا ہے۔ شفاف اور بر وقت انتخابات ہی اس کی ضمانت ہیں۔ ‘سیاسی انجینئرنگ‘ اس سارے عمل کو سبوتاژ کر دے گی۔ پاکستان میں استحکام اب باڑ کے ہاتھ میں ہے۔ اہلِ سیاست کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ غلطی کو بانجھ بنا دیں۔ اسی صورت میں انتخابات کے گرد پھیلی تشکیک کی گرد چھٹ سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے