ًٌقصور میں چائلڈ پورن نیٹورک موجود ہے.سینیٹ کمیٹی

اسلام آباد: سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے ملک میں ممکنہ چائلڈ پورن نیٹ ورک کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی۔

سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ ملک میں چائلڈ پورن کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جبکہ قصور کے واقعے میں چائلڈ پورن کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں چائلڈ پورن نیٹ ورک موجود ہے جو انٹرنیشنل نیٹ ورک سے منسلک ہے۔

سینیٹ کمیٹی نے چائلڈ پورن نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق ایف آئی اے سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی اور قصور میں چائلڈ پورن نیٹ ورک کے معاملے پر کمیٹی نے ایف آئی اے حکام کو طلب کرلیا۔

کمیٹی نے ایف آئی اے حکام کو ہدایت کی کہ وہ کمیٹی میں پیش ہو کر بتائیں کہ کیا قصور میں چائلڈ پورن نیٹ ورک موجود ہے؟

کمیٹی نے ایف آئی اے حکام سے رپورٹ طلب کی کہ اگر چائلڈ پورن نیٹ ورک موجود ہے تو اس کی نشاندہی کے لیے کیا انتظامات کئے گئے ہیں؟

یاد رہے کہ ایف آئی اے میں قابل اعتراض مواد کی انٹرنیٹ پر ترسیل و فروخت کی روک تھام کے لیے باقاعدہ کوئی ٹیم موجود نہیں اور ایف آئی اے محض عوامی شکایت یا اطلاع پر مشتبہ افراد کے خلاف حرکت میں آتاہے.

یکم فروری کو ایف آئی اے نے بچوں کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے اور فروخت کی روک تھام کے لیے ‘سائبر پٹرول ونگ یا سائبر نگرانی ونگ’ بنانے کی تجویز پیش کی تھی اور انہی دنوں بچوں کی قابل اعتراض ویڈیوز بنانے کے انکشافات سامنے آنے کے بعد آن لائن فروخت کے الزام میں 3 مشتبہ شخص کو حراست میں لیا تھا۔

اس سے قبل 13 اپریل 2018 کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے سرگودھا سے بچوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر فروخت کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے اس کا لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر قبضے میں لیا تھا۔

اس کے علاوہ قصور میں 6 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس واقعے میں پکڑا گیا ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں تاہم بعد ازاں ان کے مذکورہ دعوے غلط ثابت ہوئے تھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے