الیکشن سے قبل متحدہ مجلس عمل کا بکھرتا شیرازہ

متحدہ مجلس عمل کے مرکزی اکابرین کے طے شدہ فارمولہ ، باہمی گفت وشنید اور اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقوں سے لگ نہیں رہا کہ ان میں کوئی اختلاف پایا جاتاہے یا ان کا مجوزہ عام انتخابات الگ الگ لڑنے کا کوئی ارادہ ہے تاہم مالاکنڈ ڈویژن کی حد تک دیکھا جاسکتاہے کہ یہاں ساتوں اضلاع میں چند ایک کے علاوہ متحدہ مجلس عمل بری طرح تتربِتر‘‘ ہوگئی ہے اور دونوں سرکردہ جماعتیں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں نکل آئی ہے ایک طرف جے یوآئی جماعت اسلامی کو برداشت نہیں کرتی.

دوسری طرف جماعت کو جمعیت علمائے اسلام کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان حالات میں انہیں ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنا شاید ممکن ہی نہ ہو کیونکہ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملات اور ماضی کے تلخ تعلقات اور تجربات سے پیدا ہونے والی کدورتیں اور عام انتخابات میں انتہائی کم مدت انہیں ایک دوسرے کے قریب نہیں لاسکے گی اگرچہ مرکزی قائدین جُٹ گئے ہیں کہ کوئی اختلاف سامنے نہ آئے مگر باوجود اس کے یہاں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بعض اہم اضلاع میں دونوں جماعتیں بلکہ حیرت انگیز طور پر دونوں جماعتوں کے صوبائی امراء سنیٹر مشتاق احمد خان اور سابق سنیٹر مولانا گل نصیب خان ایک دوسر ے کے خلاف صف آرا ہو ہوچکے ہیں حالانکہ مولانا گل نصیب خان متحدہ مجلس عمل کے صوبائی امیر بھی ہیں دونوں کی جانب سے جوابی پریس کانفرنسیں بھی ہوئی ہے

لگتا یہی ہے کہ اِن کے دِل آج بھی ایک دوسرے کے لیے صاف نہیں اوریا کوئی ایسی وجہ یا مقصد ہے کہ جس کے حصول کے لیے اضلاع کی سطح پر جماعت اور جمعیت ایک دوسرے کے ساتھ خودساختہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہی ہیں اور یا ٹکٹوں کے معاملات کو فائنل کرنے سے قبل ’’کچھ لو ،کچھ دو‘‘ کے لیے سرگرمی شروع کررکھی ہے ، اس حوالے سے دونوں جماعتوں کی سرگرمیوں نے عوامی سطح پر متحدہ مجلس عمل کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرنا شروع کیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو صوبہ تو کیا مالاکنڈ ڈویژن میں چند محدود سیٹیں بھی جیت نہیں پاسکے گی ، ویسے بھی متحدہ مجلس عمل کی وہ طاقت نہیں رہی جو مشرف دور میں ایم ایم اے کے قیام اور اُس وقت کے معروضی حالات کی وجہ سے بنی ہوئی تھی ، اُس وقت انہیں ایک نئے ’’دینی‘‘ جذبے نے متحد کیا تھا لیکن آج اِن کا جذبہ دینی کم اور سیاسی زیادہ نظرآرہاہے اور ظاہری بات ہے کہ سیاسی جذبے ہمیشہ ’’سیاہ ، سی ‘‘ ہی ثابت ہوتی ہے‘ دینی نہیں ۔

ادھرمتحدہ مجلس عمل کی بحالی میں جماعت اسلامی کا کردار انتہائی ہی جان دار رہاہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جماعت اسلامی ہی کی منشاء اور خواہش پرجمعیت علمائے اسلام ف کو اس کی بحالی کے لیے راضی کیا گیا ہے ورنہ کہاں ایم ایم اے اور کہاں دینی جماعتوں کا اتحاد۔۔۔ ‘ تاہم جماعت نے یہاں اس سے فائدہ یہ اٹھانا شروع کیا ہے کہ جہاں خصوصاً مالاکنڈ ڈویژن میں انہیں اپنے امیدواروں کی نامزدگیوں کی ضرورت تھی وہیں وقت سے پہلے بلکہ بحالی کے دوران ہی ان کی نامزدگیوں کے اعلانات کیے جس میں جے یوآئی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جس کے سبب جے یوآئی نے کوئی علانیہ ناراضگی کا اظہار تو نہیں کیا تاہم واقفان حال کے مطابق کہ جمعیت کے اندر جماعت کے اس عمل کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے ان میں فاصلے بڑھتے گئے جو بالآخر گذشتہ روزایک لاوے کی صورت میں پھٹتے ہوئے سامنے آگئے ۔

اس سے قبل بھی جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے مالاکنڈ کی دو صوبائی نشستوں کے لیے بالترتیب امجد علی شاہ ، مولانا جمال الدین اور ایک قومی نشست پر شہاب حسین کی پیشگی نامزدگی کا اعلان بھی جے یوآئی کے مقامی رہنماؤں کے چہروں کے تیور تبدیل ہونے کا سبب بن گیاتھا تاہم یہاں بھی انہوں نے کوئی خاص رائے کا اظہار نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ جماعت اسلامی ایک طرف’’ ایم ایم اے ، ایم ایم اے‘‘ کاکھیل کھیلتی ہے تو دوسری طر ف’’ م زر ما ٹولہ زما ‘‘ کے راستے پر بھی چل پڑی ہے۔

یہاں مالاکنڈ میں توجے یوآئی قومی نشست یعنی این اے آٹھ خود لینے اور دو صوبائی نشستیں جماعت اسلامی کو دینے پر متفق نظر آرہی ہے تاہم دیر لوئر میں جماعت ہی کے صوبائی امیر کی جانب سے دو قومی اور پانچ صوبائی نشستوں پر اپنے امیدواروں کی نامزدگیوں کے اعلان کے بعد متحدہ مجلس عمل کے اندر دبی ہوئی چنگاریوں کو آگ کے مزید شعلوں میں بدل دیا ہے پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے کہ یہاں متحدہ مجلس عمل شدید اندرونی اختلافات کی زد میں ہے۔

تیمر گرہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران مشتاق احمد خان نے واضح کیا کہ ایم ایم اے کے پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے اور فارمولے کے مطابق لوئر دیر ، اپر دیر اور بونیر میں تمام نشستوں پر جماعت اسلامی کے امیدواران کی نامزد گیاں کی جائیں گی اور یہ کوئی انہونی نہیں ہے دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے صوبائی امیر اور اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے مولانا گل نصیب خان کی غیر موجودگی اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر مذکورہ نامزدگیوں پر جمعیت علماء اسلام آگ بگولہ ہوگئی اور اس کے ضلعی امیر مولانا زاہد خان ،ضلعی جنرل سیکرٹری امین اللہ اور دیگر حلقوں نے نہ صرف اس پر شدید احتجاج کیا بلکہ ان کی نامزدگیوں کو مسترد بھی کیا ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے نامزدگی میں باہمی مشاورت اور افہام وتفہیم کی بہ جائے ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے اس لیے جے یوآئی اپنے امیدواروں کا اعلان کرتی ہے۔

واضح رہے کہ جماعت اسلامی دیر لوئر نے این اے 6 اور این اے 7 میں بالترتیب امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق ،مولانا اسد اللہ اور پانچ صوبائی نشستوں پر جماعت اسلامی ہی کے حاجی شاد نواز خان ، ڈاکٹر ذاکر اللہ ، سابق وزیر خزانہ مظفر سید ،اعزاز الملک افکاری اور حاجی سعید گل کی نامزدگی کی ہے جبکہ جے یوآئی نے مذکورہ ہی حلقوں میں بالترتیب مولانا گل نصیب خان ، ڈاکٹر مجیب الرحمن اور صوبائی نشستوں پر اخون زادہ ہدایت اللہ ، جاوید اقبال ، مفتی خالد محمود ، مولانا حذیفہ اور مولانا وزیر زادہ کو نامزد کیا گیا ہے جس میں این اے 6 پر سینیٹر سراج الحق کے مقابلے میں جے یوآئی کے ضلعی رہنما ڈاکٹر مجیب الرحمن کی نامزدگی نے اچھا خاصہ تماشہ بنا دیا ہے جبکہ این اے 7پر مولانا گل نصیب خان کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے ضلعی امیر مولانا اسد اللہ کی نامزدگی بھی نہ صرف جگ ہنسائی کا سبب بنی ہوئی ہے بلکہ مخالف جماعتوں کے لیے تو گویا ایک ایسا ہتھیار ہاتھ آیا ہے جس کے وار سے نہیں بلکہ دکھاوے سے ہی مجلس عمل کی موت واقع ہوسکے گی۔

اسی طرح دیر اپر میں بھی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جہاں جمعیت علمائے اسلام ہی کے رہنما اور مجلس عمل کے ضلعی امیر مولانا فضل عظیم نے جماعت اسلامی بلکہ ایم ایم اے کے ذمہ دار کی حیثیت سے تمام نشستیں یعنی ایک قومی اور تین صوبائی پر جماعت اسلامی ہی کے امیدواروں سابقہ اراکین اسمبلی ایم این اے صاحب زادہ طارق اللہ اور ایم پی ایز عنایت اللہ ،محمد علی اور ملک اعظم کی نامزدگیاں کیں تاہم اگلے روز جب ا ن کے علم میں آیا کہ دیر لوئر میں تو جمعیت نے جماعت کے فیصلے سے بغاوت کی ہے تو انہوں نے بھی یوٹرن لے کر اپنے ہی جمعیت کے امیدواروں کے ضلعی امیر مولانا ریاض اللہ حقانی ،سپین خان ایڈوکیٹ،ملک نوشاداور مولانا حبیب اللہ کو نامزد کیا

اسی طرح جماعت اسلامی چترال کے امیر مولانا جمشید احمد کے مطابق جماعت اسلامی نے جمعیت علمائے اسلام ف سے اپنی راہیں الگ کی ہے اور ایم ایم اے کی بہ جائے انفرادی طور پر الیکشن لڑ ے گی ، جماعت کے اس اقدام پر جے یوآئی چترال کے ضلعی جنرل سیکرٹری وضلع نائب ناظم مولانا عبدالشکور نے بھی نہ صرف اپنا موقف پیش کیا ہے بلکہ جماعت پر کڑی تنقید بھی کی ہے جبکہ سوات ، شانگلہ ، بونیر اور مالاکنڈ میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ایم ایم اے کے مزید حصے بخرے ہونے کا امکان ہے اور لگ رہا ہے کہ جس عزم کے ساتھ مجلس عمل میدان میں اتری تھی شاید ہی سرخرو ہوکر نکل سکے۔اس حوالے سے ایم ایم اے کے صوبائی آمیر مولانا گل نصیب خان کا موقف ہے کہ ایم ایم اے نے امیدواروں کی نامزدگی کا اعلان نہیں کیا اور جماعت اسلامی نے دو دن پہلے کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے تھا

اس پر ایم ایم اے کے صوبائی جنرل سیکرٹری عبدالواسع نے موقف اختیار کیا ہے کہ کاغذات نامزدگی کوئی بھی داخل کرسکتاہے اصل فیصلہ ایم ایم اے کرے گی تاہم جے یوآئی کو دیر لوئر اور اپر میں اپنے امیدوار نامزد نہیں کرنے چاہیے تھے۔ اس سے قبل کہ ایم ایم اے میدان ہی سے آوٹ ہوجائے یا ٹوٹ کربکھر جائے مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کو ان حالات پر سنجیدگی سے غور اور فوری نوٹس لینی چاہیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے