تاریخ بتاتی ہے کہ معاشرے میں بگاڑ اور خون ریزی کا ناختم ہونے والا سلسلہ تب شروع ہوا جب مفاد پرست مذھبی رہنماوں نے مذھب کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔اب 1095 ء سے 1297 ء تک جاری رہنے والی صلیبی جنگوں سے شروع کر کے جنرل ضیاء الحق کے اسلامائزیشن دور تک کی داستان اگر میں یہاں درج کروں گا،تو ایک کالم میں سمونا ناممکن ہوجائے گا ۔اس لئے یہاں صرف 2002 ء سے2008 ء تک ایم ایم اے دور کے ان اصلاحات کا ذکرہوگا جن کے نفاذ سے نہ صرف پختونوں کی ثقافت کو بری طرح نقصان پہنچا بلکہ طالبانائزیشن کو بھی کسی حد تک فروغ ملا۔
پشاور کے معروف صحافی اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی اپنی کتاب طالبانائزیشن میں لکھتے ہیں:
’’فنون لطیفہ کی مختلف شکلیں کسی بھی قوم کی ثقافتی اور تہذیبی شناخت ہوتی ہیں ۔ یہی وہ شناخت ہے جوایک تسلسل میں آگے بڑھتے ہوئے تاریخ کا حصہ بنتی ہے اور پھر آنے والی نسلوں کو اپنے شاندار ماضی کی شاندار روایات سے آشنا کرتی اور مستقبل کے خدوخال بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ پشتون بھی ایک ثقافتی پہچان کے مالک ہیں ۔ جس کے ایک پہلو ادب میں اگر رحمان بابااور خوشحال خان خٹک جیسے لوگ ہیں جن کی روایت کو حمزہ شنواری ،غنی خان ،اجمل خٹک اور قلندر مومند جیسے لوگوں نے آگے بڑھایا ہے اورعوام کو شعور اور ماضی کی روایات میں ہم آہنگی کے ساتھ راستوں کا تعین دیا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ رحمان بابا کے مزار کو بموں سے اڑانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی ان کے مزار پر پھولوں کی چادر نہ بچھا سکے ۔کیونکہ ان کے نظریات اس کی اجازت نہیں دیتے‘‘۔
2002 ء میں دین اسلام کے نام پر بننے والی ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کے کارنامے تو سینکڑوں ہیں مگر یہاں وہی کارنامے درج کروں گا جو اپنی نوعیت کے منفرد کارنامے ہیں۔ حکومت بننے کے فورا بعد جمیعت طلباء اسلام نے سب سے پہلے پشاور یونیورسٹی کے تمام گیٹوں کے سامنے امریکی پرچم زمین پر نقش کیے جس کا مقصد امریکی پرچم کی تذلیل تھی کیونکہ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی امریکی پرچم کے اوپر چلتے تھے۔
2004 ء میں مغربی مصنوعات سے بائیکاٹ کے دوران کوکا کولا کی جگہ مکہ کولا متعارف کروایا گیا حالانکہ ہم پین کی نِب سے لے کر پینٹ کی زِب تک کے لئے مغرب کے محتاج ہے ۔اسی سال نجی سکولوں کے طلبہ پر پینٹ شرٹ اورٹائی پہننے پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی۔ جس پر بشیر احمد بلور نے بیان دیا کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ۔ بلور صاحب نے مثال میں قائد کی اسمبلی ہال میں لگی تصویر جو پینٹ شرٹ میں تھی پیش کر دی ،جس پر سراج الحق صاحب نے کہا کہ اگر کوئی قائداعظم کی سادہ کپڑوں میں تصویر لائے تو ہم اسمبلی ہال سے یہ تصویر اتار کر وہ لگا دیں گے۔
2004 ء میں ایم ایم اے کے کچھ لیڈر تصویر کو حرام سمجھتے تھے اور جب کوئی آفیشل فوٹوگرافر تصویر کھینچتا تو یہ لیڈرز نقاب اوڑھ لیتے تھے ۔ایم ایم اے دور میں سنیما سے پوسٹرز ہٹائے گئے خاص کر وہ پوسٹرز جن پر لڑکیوں کی تصاویر تھیں۔ جن پوسٹرز پر پھر بھی خواتین کے تصاویر ہوتیں ان جگہوں پر جمیعت کے کارکن حملے کرتے تھے ۔
ہر جمعے کے دن حکومت کی سرپرستی میں پشاور کے جناح پارک میں پولیس آڈیو اور ویڈیو کیسٹ جلایا کرتے تھے جس کا مقصد پشاور سے ”فحاشی و عریانی” کو ختم کرنا اور لوگوں کو یہ تاثر دینا تھا کہ اسلام کے متصادم کوئی بھی قدم آپ کو خطرے میں ڈال سکتاہے۔
دو سو سال پرانے ڈبگری بازار کو زبردستی موسیقاروں سے خالی کیا گیا۔ پشاور نشتر ہال کو تالے لگا دیے گئے اورتمام سٹیج شوز،موسیقی کے پروگرامزاور دوسری تفریحی تقریبات کے انعقاد پر غیر علانیہ پابندی لگا دی گئی۔
ایم ایم اے نے ٹرانسپورٹ گاڑیوں سے ٹیپ ریکارڈ اور ویڈیو سکرین نکالنے کے سخت احکامات جاری کیے۔ پولیس کے ذریعے بعض گلوکاروں اور فنکاروں کو گرفتار کیا گیا اورانہیں زبردستی اپنا کام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ جن میں خیال محمد اور گلزار عالم قابل ذکر ہیں ۔ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
اس کے علاوہ مذھب کے نام پر اغواء برائے تاوان عام تھا جس کو بالواسطہ یا بلاواسطہ صوبائی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی ۔
ایک آزاد ملک میں بزور بندوق مندرجہ بالا اقدامات کی اجازت ہے یا نہیں ؟ یہ سراج الحق ،مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کو پتہ ہوگا ۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اقتدار کی خاطرمولانا فضل الرحمان صاحب آمروں کی صفوں میں بھی شامل رہے ہیں اوراس جرنیل کے ساتھ نام نہاد اپوزیشن لیڈر بھی بنے رہے جس پر اب بھی آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔
لال مسجد پر حملہ،اکبربگٹی کے خلاف آپریشن ،اور پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کرنے تک کے فیصلوں میں مولوی صاحب جنرل پرویز مشرف کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔80 ء کی دہائی میں جب بینظیر بھٹو نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو مولانا فضل الرحمان نے مذھب کا پتا کھیلتے ہوئے فتوی جاری کیاکہ اسلام میں تو عورت کی حکمرانی حرام ہے۔ لیکن جب بی بی وزیراعظم بن گئی تو مولانا صاحب کو ایسی وزارت ملی کہ آج بھی مولانا صاحب عوامی حلقوں میں اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔
اس کے بعد نواز شریف اور پھر ”73 ء کے آئین کے تناظر” میں جنرل پرویز مشرف کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔غرض یہ کہ مولاناصاحب ایسے سیاستدان ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان پر اسرائیل قابض ہوجائے تو یقین کیجئے !مولانا فضل الرحمان ان کی کابینہ میں بھی خود کو نہ صرف شامل کریں گے بلکہ دو تین عہدے اور چند وزارتیں بھی اپنے نام کریں گے۔
سراج الحق صاحب بھی پانچ بڑی سیاسی جماعتوں کے پرجوش اتحادی ہیں۔ روایتی سیاستدانوں کی طرح سراج الحق صاحب بھی فیصلہ لینے میں ہچکچاتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب 2014 ء میں عمران خان نواز شریف کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر تھے تو اس وقت سراج الحق صاحب کہتے نہیں تھکتے کہ عمران خان جو کچھ بھی سسٹم اور نواز شریف کے بارے میں کہہ رہے ہیں بالکل سچ ہے لیکن میں نواز شریف کے ساتھ ہوں کیونکہ جمہوریت کو خطرہ ہے ۔
اس وقت مضبوط اعصاب والے جس انقلابی لیڈر کی پاکستانی قوم کو تلاش ہے ۔ وہی مطلوبہ سہولت سراج الحق صاحب میں میسر نہیں ۔ ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایک منشور اور الگ سیاسی نعرہ ہوتا ہے لیکن مذھب کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی تمام باتیں مذھب کے گرد گھومتی ہیں ۔
بعض اوقات ان کے مخالفین کے پاس بہت زیادہ معلومات ہوتی ہے لیکن چونکہ مذھبی سیاستدانوں نے مذھب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ آسانی سے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں ۔اس کے برعکس قوم پرست یا بائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں کو کافی تگ ودو کرنی پڑتی ہے۔
پچھلے دنوں سراج الحق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ’سیکولرزم ‘ کا مطلب ہے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ،حالانکہ سیکولرزم ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو ریاستی معاملات میں کسی ایک مسلک و مذھب کے قوانین دوسرے مسالک و مذاھب کے ماننے والوں پر مسلط کرنے کی بجائے اتفاق رائے سے سب کے لئے قابل قبول نظام بنانے کی بات کرتا ہے جبکہ سراج الحق صاحب نے سیکولرزم کو شادی بیاہ سے منسلک کردیا۔ اسی تقریر میں سراج الحق صاحب نے کشمیر کو آزاد کرانے کا سہرا جماعت اسلامی کے سر باندھ دیا لیکن سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں طلباء بھیجنے کا ذکر تک نہیں کیا۔
سچ یہی ہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول تک مذھبی سیاسی جماعتیں بالواسطہ یا بلاواسطہ طالبان کی حامی تھیں۔ اور یہ سلسلہ ریاست کی سرپرستی میں سوویت یونین کے خلاف افغان وار میں ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا تھا جو سانحہ آرمی پبلک سکول تک چلتا رہا ۔
مندرجہ بالا واقعات پڑھنے کے بعد میں فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ایم ایم اے خیبر پختونخوا کو ترقی کی اس راہ پر گامزن کر سکتی ہے یہ پھر یہ اتحاد رونگ نمبر ہے؟