کیا لیفٹسٹ بھی شیعہ اور سنی ہوتے ہیں؟

کیا لیفٹسٹ بھی شعیہ اور سنی ہوتے ہیں؟ یہ بحث اس سوال سے شروع ہوئی کہ بائیں بازو کے لوگ ووٹ کو عزت دو مہم میں نواز شریف کے حامی کیوں ہو گئے ہیں اور عمومی رجحانات کے حامل پیپلز پارٹی کے روائتی ووٹر تحریک انصاف کی طرف کیوں چلے گئے ہیں۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے وہ لوگ تھے جو ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کے حامی تھے۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگ بھی اپنے ساتھ اپنے خاندانی اور نسلی تعصبات لے کر روشن خیالی کی تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ ایران میں شعیہ انقلاب کے بعد پاکستان میں انیس سو اسی کی دہائی میں شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا تو تمام روشن خیال حلقوں نے ایک فرقہ کو نشانہ بنانے کی مذمت کی۔ روشن خیال لوگ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق اور اس کے حامیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سنی اور قدامت پسند رہی ہے۔ اس طرح روشن خیال اور شیعہ مکتبہ فکر کے لوگ مشترکہ مخالف کے مقابلے میں آپس میں قربت محسوس کرنے لگے۔

کہتے ہیں کہ انسان اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہے لیکن فرقہ نہیں چھوڑ سکتا۔ فرقہ دراصل بچے کو اس کے والدین کی طرف سے ملتا ہے۔ بائیں بازو کے جن لوگوں کا خاندانی پس منظر سنی تھا وہ جنرل ضیا کی حکومت کو ناپسند کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ سعودی عرب کی حکمرانوں کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
جنرل ضیا اور عرب حکمرانوں کے لئے ناپسندیدگی اپنی جگہ لیکن سنی پس منظر والے روشن خیال لوگ ایران میں آنے والے شیعہ انقلاب کو بھی اسی نظر سے دیکھتے تھے جس سے وہ سعودی عرب کی ملائیت کو دیکھتے تھے۔ تاہم شیعہ مکتبہ فکر کا اس سلسلے میں نقطہ نظر مختلف تھا مگر وہ کھل کر ایرانی ملاؤں کی حمائت بھی نہیں کر سکتے تھے۔

جنرل ضیا الحق کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب پاکستان میں پہلے انتخابات ہوئے تو تمام روشن خیال لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔ یہاں بھی روشن خیال اور شیعہ مکتبہ فکر ایک ہی سمت میں گامزن تھے اور نواز شریف جو جنرل ضیاالحق کے سیاسی جانشین قرار پائے تھے ان کے مشترکہ حریف تھے۔

انیس سو نوے کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی باہم محاذ آرائی کے بعد جب جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں سعودی عرب جلا وطن کر دیا تو یہاں تک بھی روشن خیال اور شیعہ مکتبہ فکر ہم قدم رہے۔شیعہ مکتبہ فکر کا نواز شریف کے ساتھ بنیادی اختلاف یہ ہوا کہ انہوں نے ایک کٹر وہابی ریاست جو ایران کی مخالف تھی میں جا کر کیوں پناہ لی۔ اسی بنیاد پرانہوں نے نواز شریف کے مقابلے میں جنرل پرویز مشرف کی حمائت شروع کر دی اور بعض نے ان کی حکومت میں عہدے بھی حاصل کئے۔

نواز شریف نے جلا وطنی کے دوران جب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت موقف اپنایا اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تو اس وقت بعض روشن خیال لوگوں کی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ ہونا شروع ہوئیں۔

ادھر پیپلز پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت میں کمی کے بعد روشن خیال لوگوں کے لئے یہ سوال کھڑا ہو گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی جگہ کونسی سیاسی جماعت کا ساتھ دیں۔ ایک طرف ماضی میں جنرل ضیا کے سیاسی جانشین رہنے والے نواز شریف تھے جو اب اسٹیبلشمنٹ کی بھارت مخالف پالیسی کے برعکس ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کے حامی تھے اور دوسری طرف طالبان کو بھائی قرار دینے والے عمران خان کی تحریک انصاف تھی۔ پیپلز پارٹی کے عمومی ووٹرز نے تحریک انصاف کو ترجیح دی جبکہ باخبر رائے رکھنے والے لوگوں نے اول تو غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی مگر بعد میں اسٹیلشمنٹ کی نواز شریف کے خلاف مسلسل کارروائیوں کے باعث روشن خیال لوگ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
آج پنجاب کے روشن خیال لوگوں کی اکثریت نواز شریف کے ساتھ ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا بدلہ لینے کے خواہشمند ووٹرز نواز شریف کو ہرانے کی خواہش لئے عمران خان سے مل گئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے