فوج قابل احترام ہے لیکن . . .

محترم ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور کی حالیہ  پریس کانفرنس کے ایک حصے کو اگر واضح الفاظ میں دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کے بیانیے پر تنقید کرنے والوں کیلئے ایک وارننگ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔  غالبا جنرل آصف غفور صاحب اپنے دل سے ایک سچے فوجی کی مانند وطن عزیز کو لاحق  اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ لیکن ان کی پریس کانفرنس کے کچھ حصے بطور پاکستانی شہری اور صحافی بہت سے افراد کو ناگوار لگے۔

آصف غفور صاحب کے ادارے کا احترام سر آنکھوں پر اور یقینا افواج پاکستان کی وطن عزیز کی سالمیت کیلئے دی جانے والی قربانیوں کو ہر پاکستانی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن بطور ایک شہری اور صحافی مجھ سمیت ہر وہ شخص جو فوج کے ادارے کی  عزت و تکریم کرتے ہوئے اس ادارے کو اپنی ریاست کا اہم ترین ستون گردان کر اس کی چند پالیسیوں سے اختلاف کی جرات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز ادارہ کی تحقیر کرنا یا اس کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا۔

اگر چند  صحافی یا ایکٹیوسٹ  کسی ایجنڈے کے تحت عسکری اداروں پر تنقید کر کے کسی بھی دوسری طاقت سے فوائد حاصل کرتے ہیں  تو ایسی کالی بھیڑوں کو یقینا قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے لیکن اصلاح کی غرض سے تنقید کرتی آوازوں کو سیکیورٹی رسک قرار دینا یا وطن دشمن قرار دینا نہ صرف زیادتی ہے بلکہ بہت بڑا الزام ہے۔بطور صحافی اور بطور پاکستانی شہری آصف غفور صاحب کی اس حالیہ پریس کانفرنس سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے میں اپنے چند تحفظات ، چند گلے اور چند سفارشات آصف غفور صاحب اور ان کے ادارے کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میری ان گزارشات اور ان شکایات کو وطن کے اداروں کی تضحیک کے زمرے میں نہیں بلکہ ماضی اور حال کی غلطیوں کی نشاندہی گردانتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کی خاطر ایک کم عقل و کم فہم انسان کی  ایک  درخواست سمجھا جائے گا۔ 

بیرونی قوتوں اور ہائبرڈ وار کے متعلق عسکری اسٹیبلشمنٹ کے تحفظات بالکل درست اور جائز ہیں اور ہر ذی شعور پاکستانی ان سے  اتفاق کرتا ہے لیکن  عسکری اسٹیبلشمنٹ کی چند سابقہ پالیسیوں اور حال میں رونما ہونے والے پراسرار سیاسی حالات و واقعات پر تنقید  کرتے  چند  صحافیوں  اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کی تصاویر کو میڈیا پر دکھا کر انہیں اینٹی اسٹیٹ یعنی غداری کا مرتکب ٹھہرانا ہرگز بھی قابل ستائش عمل نہیں ہے۔ اس عمل سے یہ تاثر ابھرتا ہے  کہ ہماری عسکری اسٹیبلشمنٹ شاید ابھی بھی ماضی  کی حسین یادوں اور ناسٹیلجیا کی  اس کیفیت سے باہر آنے کو تیار نہیں دکھائی دیتی ہے.

جب چند آمر اپنے ذاتی فوائد کیلئے ادارے کی ساکھ کو مجروح کر کے عوام کو  ملی نغمے سنوا کر اور مین اسٹریم میڈیا پر خاموش کنٹرول سے اپنے قصیدے پڑھوا کر اپنے ماورائے آئین اقدامات کو بھی حب الوطنی کی آڑ میں چھپا  جاتے تھے . باجود اس حقیقت کے کہ موجودہ عسکری اسٹیبلشمنٹ ماضی کے برعکس  نہ صرف تنقید سہتی ہے بلکہ بقول آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے  اختلاف رائے  کو جمہوریت کا حسن قرار دیتی ہے لیکن  حالیہ پریس کانفرنس سے  یہ تاثر ابھرا ہے کہ جیسے  آج   بھی عسکری اسٹیبلشمنٹ اپنے اوپر ہونے والی  تنقید کو برداشت کرتی دکھائی نہیں  دیتی ۔

بصد احترام راقم یہ عرض کرنے کی جرات کر رہا ہے کہ  وہ آوازیں جو دفاعی بیانیے یا دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے پس پردہ سیاسی کردار پر تنقید کریں انہیں غدار یا ملک دشمن قرار دینا ایک انتہائی غیر دانش مندانہ اقدم ہے۔  بطور پاکستانی شہری میری نظر میں کون محب وطن ہے اور کون ملک دشمن اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی بھی ایک ادارے کو ہرگز نہیں دیا جا سکتا ۔ ریاست پاکستان عوام کے دم سے ہے نا کہ کسی ادارے کے دم سے اور نہ کوئی ادارہ اپنے آپ کو ریاست سمجھتے ہوئے خود پر ہوتی تنقید کو ریاست پر تنقید سے مشروط کر سکتا ہے۔

 میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں یہ  بھی فرمایا کہ فوج کبھی کسی کی غلطی معاف نہیں کرتی، چاہے وہ سپاہی ہو یا کوئی جنرل۔ ان کی اس بات سے وطن عزیز میں آئین اور دستور کو پامال کر کے آمریت نافذ کرنے والے جرنیل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف یاد آ گئے جن کے جرائم پر سزا  تو کجا  ان میں سے تین کو  الٹا سرکاری پرچم میں اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا جبکہ چوتھے آمر پرویز مشرف پر مقدمہ ختم کروانے کیلئے ایک منتخب حکومت کو گھٹنے ٹکوا کر اسے باہر فرار کروا دیا گیا۔

ایڈمرل منصور، سقوط ڈھاکہ کے مجرم  جنرل نیازی  کو کوئی علامتی سزا بھی نہیں سنائی گئی۔ جنرل رضوان اختر کو اربوں روہے کی کرپشن پر صرف ملازمت سے برطرف کیا گیا جبکہ این ایل سی سکینڈل میں ملوث جرنیلوں کو بھی محض ناپسندیدہ قرار دے کر ملازمت سے برخواست کیا گیا۔  احسان اللہ احسان ،ذکی لکھوی ،حافظ سعید اور کتنے ہی اور سٹریٹیجیک اثاثوں کو پروان چڑھایا گیا اور اب اس غلطی کو اجاگر کرنے والوں کے خلاف وہی پرانا وطن دشمنی کا کارڈ کھیل کر یہ ثابت کیا گیا کہ غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے غلطیاں اجاگر کرنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ 

سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں اور صحافیوں کی تصاویر ملکی میڈیا پر نشر کروا کے نہ صرف ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے بلکہ  ان کے اہل خانہ کو بھی شدید ذہنی عذاب سے دوچار کر دیا گیا ہے۔  کل کو کوئی بھی پراپیگینڈے کا اسیر اٹھ کر ان کو  وطن دشمن قرار دیکر گولیوں سے بھون ڈالے گا تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ وطن دشمنی یا غداری کا لیبل بنا کسی قانونی کاروائی یا دوسرے فریق کو  کسی عدالت میں سنے بغیر عطا کرنا  بذات خود قانون اور آئین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

ایک ادارہ جس کے ذمہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ہے وہ کیونکر خود ہی مدعی  اور  خود ہی منصف بن کر کسی کو ملک دشمن یا بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والا قرار دے سکتا ہے۔ اگر آصف غفور صاحب اور ان کا ادارہ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کے ادارے کی پالیسیوں اور بیانیوں پر عوامی حلقوں سے اس قدر تنقید کیوں ہوتی ہے تو شاید انہیں ادراک ہو گا کہ ان کے ادارے کا پاک پوتر رتبے پر خود سے ہی فائز ہو جانا اور پھر خود سے ہی تنقید کرنے والوں کی آواز کو دباتے ہوئے انہیں غدار قرار دینا بذات خود اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

  دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ  ریاستی بیانیوں کو تشکیل دیتے ہوئے اور امور  مملکت کو پس پردہ رہ کر خود چلانے والے ادارے کو تنقید تو سہنی پڑے گی۔ یا تو ہمارا عسکری ادارہ آئین پاکستان کی شق 245 کے تحت صرف آئین میں طے شدہ کردار یعنی سرحدوں تک محدود ہو تو پھر واقعی میں ادارے پر تنقید کو بلاجواز اور دشمنی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن جب ادارہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرے ،ریاست کی دفاعی اور خارجہ پالیسیاں اور بیانیے  خود طے کرے اور ہر قسم کی کاروباری سرگرمی میں شریک ہو تو پھر بہرحال نہ صرف ادارے پر سوالات اٹھیں گے بلکہ ان کے جوابات بھی بہر طور دینے پڑیں گے۔

آصف غفور صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو ملکی مفاد میں مانیٹر کر رہے ہیں۔ ہمارا ملکی مفاد کیا ہے اس کی تشریح آج تک حل طلب ہے ۔ کیا ملکی مفاد وہ تھا جس کے تحت ضیا الحق نے ملک کو ڈالر سپانسرڈ جہاد میں جھونکا یا پھر وہ جس کے تحت مشرف نے ملک کو اپنے ہی بنائے گئے سٙریٹیجک اثاثوں کے خلاف ایک اور جنگ میں دھکیلا؟ کیا ملکی مفاد وہ ہے جس کے تحت ایبٹ آباد آپریشن کی اجازت امریکیوں کو دی گئی یا  ملکی مفاد وہ ہے جس کے تحت عصمت اللہ  معاویہ اور احسان اللہ احسان جیسے دہشت گردوں کو ہزاروں بے گناہوں کے خون میں ہاتھ رنگے ہونے کے باوجود معاف کر کے انہیں ناراض بھائی قرار دیا گیا۔ 

قومی مفاد کی ایک مکمل تشریح محض ایک ادارہ حسب ضرورت بارہا تبدیل کر کے کس طرح سے وطن میں بسنے والے دیگر افراد کو اس قومی مفاد کی  تشریح کی اجازت نہیں دیتا؟ کیا قومی مفاد کی تشریح دستور ساز اسمبلیوں کا کام نہیں ہے اور کیا قومی مفاد کو سمجھنے کیلئے وطن عزیز میں بسنے والے لوگوں کی عقل ناکافی ہے؟ 

منظور پشتین اور اس کے ساتھیوں کے حوالے سے آصف غفور صاحب اور ان کے ادارے کے شکوک و شبہات درست قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن اگر بالفرض نادانستگی میں منظور پشتین اور اس کے ساتھی بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں تو بجائے ان کی برآمد کردہ افغانی ٹوپیوں کی تعداد پر نظر رکھنے کے، ان سے بار بار ڈائیلاگ کر کے باآسانی کوِئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ ویسے آصف غفور صاحب فوجی حکمت عملی فرینڈلی فائر سے ضرور واقف ہوں گے ، اگر اس حکمت عملی کو اپناتے ہوئے وہ  ایک دن وہ قصیدہ خواں صحافیوں اور دانشوروں کے بجائے تنقید کرنے والے صحافیوں اور ایکٹوسٹوں کو بلا کر سوال جواب کا موقع دیں، ان کی بھی سنیں تو شاید اس کے نتیجے   میں آصف غفور کے ادارے اور "غداروں” کے درمیان بہت سی غلط فہمیوں کا اختتام ہو سکتا ہے۔

جہاں دھمکیاں اور جبر کے اتنے ہتھکنڈے آزمائے گئے اور جہاں صوفی محمد، احسان اللہ احسان جیسے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے گئے تووہاں سول سوسائٹی اور تنقید کرتے صحافیوں کے ساتھ چند نشستوں کا احتمام کرنے سے کوئی آسمان نہیں گرے گا۔ مکالمے کا آغاز کیجیے ڈرانے دھمکانے کا نہیں۔ ریاست اور شہریوں کا رشتہ ڈر  اور شک کی بنیاد پر نہیں بلکہ محبت اور یقین کی بنا پر قائم رہتا ہے۔ سن اکہتر میں ہم نے ڈرانے اور شک کرنے کا انجام اچھی طرح سے دیکھا ہے۔  

آصف غفور اور ان کے ادارے کا احترام سر آنکھوں پر لیکن ان کا ادارہ ریاست پاکستان کا ایک حصہ ہے بذات خود ریاست  نہیں ہے ، اس لیے ان کے یا ان کے ادارے کو نہ تو کسی کو وطن دشمنی یا محب الوطنی کی اسناد بانٹنے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی وطن عزیز کے باشندوں کو حب الوطنی کی تصدیق کیلئے ان کے ادارے کی اسناد کی ضرورت ہے۔

صحافی کا کام معلومات دینا ، رائے عامہ بنانا اور پالیسیوں میں نقائص کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے اگر رائے عامہ بنانے کے شعبے پر بھی کوئی اجارہ داری چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی ان گنت قصیدہ خوانوں کی موجودگی میں چند تنقیدی آوازیں آخر کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہیں؟ ریاست کے معاملات خوف اور ڈر کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی اعتماد، مجبت اور صحت مند مکالموں کی بنیاد پر چلا کر دیکھنے کی کوشش کریں آپ کو تمام غدار اور وطن دشمن صحافی اور ایکٹوسٹ اپنی طرح ہی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار نظر آئیں گے۔ 

امید غالب ہے کہ ریاست کا اہم ترین ستون جس نے ماضی کے برعکس کافی حد تک تنقید برداشت کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔  آئندہ بھی  اختلاف رائے کرتی آوازوں کو سپیس فراہم کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ ان کو جوابات فراہم کر کے ریاست میں ایک صحت مند مکالمے کی بنیاد رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گا۔ قمر جاوید باجوہ اور آصف غفور  چونکہ خود پڑھنے لکھنے سے شغف رکھتے ہیں اس لیے ان سے بہتر یہ بات کون جان سکتا ہے کہ صحت مند تنقیدی مکالمے اور مباحثے  معاشرے کی فکری بلوغت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور فکری طور پر بالغ معاشرے کو دشمن کسی بھی قسم کے پراپیگینڈے سے زیر نہیں کر سکتا۔ 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے