گل سے کوئی کہے کہ شگفتن سے باز آ

سلطان ناراض ہے۔ جلال پادشاہی کھلے اظہار کی اجازت نہیں دیتا لیکن چتون کہے دیتی ہے کہ تاحد نگاہ پھیلی سلطنت مفتوحہ اور مملکت محروسہ میں کہیں کہیں مزاحمت کے منطقے بدستور موجود ہیں۔ یوں تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ محل سرا کی منڈیروں پر خوش رنگ پرندوں کے غول یوں اتر رہے ہیں گویا دسمبر 2011 کی یاد تازہ ہو گئی جب چالیس روز کی مختصر مہم میں اصحاب زہد و ورع کے ایک پورے لشکر نے سلطان معظم کے پرچم تلے اطاعت قبول کی تھی۔ ایوان بالا میں صاحبان صدق و صفا کے نام کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔ عارضی دمدموں میں وفاداران بااعتبار کی تعیناتی ہو چکی۔ ایوان عدل میں حرف انصاف صبح و شام بلند ہو رہا ہے۔ مجرمان قوم ہر روز گردن ڈالے حاضر ہوتے ہیں۔

دن ڈھلے روندے ہوئے احترام اور رندھے ہوئے لہجوں کو اذن رخصت دیا جاتا ہے۔ کم حیثیت پرچہ نویسوں اور سرکش نقارچیوں کے جملہ سردار حرف خراج کا عہد دے چکے۔ اہل منبر و محراب سے تعلق قدیمی استوار ہے۔ باقی اہل تجار، اہل حرفہ اور اجلاف کی کیا مجال کہ آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ حرم سرا میں سپردگی کا فرمان جملہ درجات قرابت تک پہنچ چکا اور تعمیل کے پیام موصول ہوئے۔ اور لطف یہ کہ موسم مہربان ہے۔ دن کی روشنی، شام کے دھندلکے اور رات کی چھٹکی ہوئی چاندنی میں یکساں راحت کے اسباب ہیں۔ ایک بے کلی مگر سلطان کو

لاحق ہے۔ ایک اضطراب باطنی ہے کہ مزاج شناس جہاں پناہ سمجھتے ہیں۔

یہ وارث تخت سے محرومی کا غم نہیں۔ اس پہلو سے تو مملکت خداداد پر فضل باری تعالیٰ ہے۔

جہاں ایک چاہیے، وہاں دس موجود ہیں مگر یہ منطقہ ارضی خوئے وفا سے خالی ہے۔ سرکشی یہاں کی مٹی میں اس طرح آمیخت ہے گویا بہتے دریا میں موج کا خرام۔ بے چہرہ نفوس کے اژدھام، افتادگان خاک کے ہجوم، علم سے بے بہرہ، فہم سے عاری، مفاد قومی سے بے خبر، دور دراز شہروں اور قصبوں کے میدانوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر ووٹ کے لئے عزت مانگتے ہیں۔

کوئی پوچھے، تمہارے باپ دادا نے کبھی ووٹ کی صورت دیکھی تھی؟ کم بخت، نامحمود اور تہی دست تعلیم مانگتے ہیں۔ اظہار کی آزادی مانگتے ہیں۔ یہ بدباطن لوگ اپنے دیس کی روایت سے بے خبر ہیں۔ ولایت اغیار کی نقل میں حق حکمرانی مانگتے ہیں۔

مادر پدر آزادی مانگتے ہیں۔ ایک پارچہ بوسیدہ کبھی پیران فرتوت کے ایک گروہ کم عقل نے دستور کے نام سے دستاویز کیا تھا، طفلان گلی کوچہ اس دفتر بے معنی کو جھنڈے پر چڑھائے پھرتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ چہار سو ادبار کے بادل گھرے کھڑے ہیں جن پر سلطان کی تلوار نے حصار باندھ رکھا ہے۔ سلطان کے اقبال کا صدقہ ہے کہ کسی کو چار دانگ عالم میں نظر بد کی ہمت نہیں۔ ان کے دروازے غنیم کی ٹھوکروں سے مامون ہیں، ان کے کھیتوں کو دشمن کے گھوڑوں کا چارہ بننے کا اندیشہ نہیں، یہ سلطان کی اہلیت خداداد اور نجابت قدیمی کے طفیل ہے۔

کل یگ ہے۔ ماضی میں معدودے چند آوارہ صفت اخبارات کے صفحات سیاہ کرتے تھے، کچھ خطاب یافتہ ٹیلی وژن نامی بستہ حماقت پر بھاشن دیتے تھے۔ ان کی گردن ناپنا آسان تھا۔ اب سوشل میڈیا کے نام سے ایک وبا پھیلی ہے۔ کہنے کو چند فتنہ پرور ہیں مگر طوفان سرکشی کا اٹھاتے ہیں۔ اور مٹھی بھر شورہ پشت اپنی چھت تلے بیٹھے بذریعہ دستی فون پیغامات لغو کے چوہے دوڑاتے ہیں۔

اچھے وقتوں میں خبر روکنا اور رعایا کو بےخبر رکھنا آسان تھا۔ کہیں سو لوگ مارے گئے، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے پانچ شر پسندوں کے مرنے کی خبر دی۔ مملکت میں کوئی جابرانہ قانون مفاد اجتماعی میں نافذ کیا گیا، کسی پدر سوختہ کو اجازت نہیں تھی کہ بال کی کھال اتارے۔ بیرونی ممالک میں کوئی ناپسندیدہ خبر شائع ہوئی، پرچہ مذکور کا داخلہ ملک میں روک دیا گیا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ کاروبار مملکت بطریق احسن جاری رہتا تھا۔

کوئی سانحہ ایسا رونما ہو گیا جسے چھپانا ممکن نہ رہا تو اس کا الزام مفسدان ناپسندیدہ پر رکھ دیا جاتا تھا۔ اس ملک عالی شان میں ایسے ایسے عالی جاہ گزرے ہیں کہ سینے پر ہاتھ رکھ کر کھلے عام جھوٹ بولتے تھے اور کسی بدقماش کو اختلاف کی مجال نہیں ہوتی تھی۔ ہمارا ملک ٹوٹ گیا۔ سانحے کے ذمہ دار سینہ گیتی پر راج ہنس کی مانند دندناتے پھرے۔ حامد کی ٹوپی محمود کے سر رکھی گئی۔ توشہ خانے میں تیار کردہ پھندہ جس کی گردن پر پورا اترا، اسے نشان عبرت بنا دیا گیا۔

مگر صاحبو، یہ ففتھ جنریشن وار فیئر ہے۔ اب آپریشن فیئر پلے کی آسودگی خواب ہوئی۔ تیندوے کا میمنے سے مچیٹا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مشت خاک میمنوں کی تعداد اکیس کروڑ ہو چکی اور خدا جھوٹ نہ بلوائے، اکیس کروڑ میں چالیس کروڑ تلنگے دانش کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ بات نہیں سمجھتے، دند مچائے جاتے ہیں۔ غضب یہ کہ ہم سو کو دس بتاتے تھے، یہ ایک کو سو لکھتے ہیں۔ رسائی ان کی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ تک ہے۔ خالی ہاتھ، تہی کیسہ، جنم جنم کے مفلس، نشست و برخاست کے آداب نہیں جانتے، خلعت شاہانہ کا سلیقہ نہیں رکھتے، مگر یہ کہ اموال شاہی کی تقسیم پر دعویٰ کرتے ہیں۔ حق حکمرانی کی نالش کر رکھی ہے۔ بندگان عالی نے بندوبست ضروری کر رکھا ہے۔ کاغذ پر نقشے بنا کر رنگ دار پنیں لگائی ہیں۔ کاسہ لیسان ازلی کو مناسب اشارے دئیے ہیں۔ کسی کو تھپکی دی، کسی کو دھونس دی۔ مگر سلطان ذی جاہ کی بے کلی نہیں جاتی۔

کل پانچ ہفتے باقی ہیں۔ جولائی کی پچیس، چہار شنبہ کو چیونٹیوں کے غول اپنے گھروں سے برآمد ہوں گے۔ اور جو کہیں حکم عدولی پر کمر باندھ لی تو کس کس کی گردن ناپی جائے گی۔ عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ گھروں میں بیٹھی بہو بیٹیاں رات گئے امور سلطنت پر رائے زنی کرنے ٹیلی وژن گھروں کی طرف نکلتی ہیں۔ بندگان حکم نے دوڑ دھوپ کی، بہلا پھسلا کر واپس بھیجا مگر سلطان ناراض ہے کہ کسی شرپسند نے شہر کے سب سے بوڑھے برگد پر ایک شعر کندہ کر دیا ہے.

گل سے کوئی کہے کہ شگفتن سے باز آ
اس کو پھولنا ہے نہ پھولے تو کیا کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے