خبر دینے والے خود خبر کیوں بنتے ہیں؟

ظالموں کے خلاف آواز اٹھانا، یہ بھی ایک موسمی مسئلہ بن گیا ہے، ظالموں کے خلاف کوئی صرف یوم القدس کے موسم میں بولتا ہے ،کوئی فقط محرم الحرام میں جوش میں آتا ہے اور کسی کی جب خود پٹائی ہوتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ ظالموں کے خلاف بھی بولنا چاہیے۔

آج کل جس کو دیکھیں وہی مظلوم بنا ہوا ہے، کوئی مری سیر کے لئے جاتا ہے تو اس کی وہاں در گت بنائی جاتی ہے ، کسی کو ائیرپورٹ پر پکڑ کر پھینٹی لگائی جاتی ہے، کسی کو راستے سے اغوا کرلیا جاتا ہے، لیکن بولتا ہر کوئی نہیں، بولتا صرف وہ ہے جسے مار پڑتی ہے ورنہ اکثر ہوں ہاں پر ہی گزارہ کیا جاتا ہے اور ویسے بھی ہمارے ہاں سیاسی مسائل اتنے اہم ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے لوگوں کے جان و مال اور امن و سکون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

کسی بھی شخص کی پٹائی ہونے پر اگر شور پڑ جائے تو پٹائی کرنے والے سب مل کر باجماعت معافی مانگنے کا اعلان کرتے ہیں، اور پھر اگلے روز وہی کچھ دوبارہ ہونے لگتاہے۔ جیسا کہ مری کے مسئلے پر ہوا، سب نے باجماعت عوام سے معافی مانگی، ٹوریسٹ حضرات کو پھول پیش کئے اور ابھی تک ایجنٹ مافیا اور گراں فروشی اسی طرح ہے۔

اپ پٹائی کرنے کا دائرہ کار عام لوگوں سےبڑھتا ہوا صحافیوں تک پہنچ گیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی بہانے کہیں نہ کہیں پر کسی نہ کسی صحافی کی پٹائی کی جاتی ہے اور اگر صحافی زیادہ ہی نڈر ہو تو ذیشان اشرف بٹ کی طرح اسے موت کی منہ میں بھی دھکیل دیا جاتا ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح انسانی زندگی کے لئے آکسیجن ضروری ہے اسی طرح انسانی سماج کی زندگی کے لئے آزادی رائے اہم ہے۔ اگر معاشرے میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوگی تو معاشرتی اقدار مٹ جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آزادی اظہار کو سمجھا ہی نہیں گیا ، بعض لوگ تو اس حد تک جری ہیں کہ وہ لوگوں کے پرسنل اور ذاتی معاملات کی بھی ویڈیوز بنا کر فیس بک اور وٹس اپ پر شئیرکر دیتےہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا اور بعض افراد کسی معاملے پر کسی صحافی کو بھی بولنے یا رپورٹنگ نہیں کرنے دیتے۔

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق دسمبر 2017 میں الیکٹرانک میڈیا کے آٹھ صحافیوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کیا گیا ، ان سب کا تعلق سندھ سے تھا۔ مختلف چینل کے چار کیمرا مینوں کو سکھر میں 9 دسمبر کو پولیس نے تشدد کا نشانہ اس وقت بنایا جب وہ ایک پولیس اہلکار کو شراب پیتے ہوئے ریکارڈنگ کر رہے تھے۔

ایک علاقائی صحافی نے کراچی پریس کلب کے سربراہ کو اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے کہا: ”کیمرا مین پولیس والے کی ویڈیو بنا رہا تھا جب اس پر باقی پولیس والوں نے ڈنڈوں سے دھاوا بول دیا۔” زخمی ہونے والوں میں جیو نیوز کے اسامہ طلعت، جنگ اخبار کے فوٹوگرافر سلمان انصاری اور قذافی شاہ شامل تھے۔[1]

24 دسمبر ۲۰۱۷ کو ایکسپریس نیوز کے ارشد بیگ کو اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کراچی کے سٹی کورٹ سے فرار ہونے والے ملزم کی وہ فوٹیج بنا رہا تھا۔ مقامی وکلاء کا ماننا ہے کہ ارشد سے اس کا موبائل چھین لیا گیا اور اسے بار کے کمرے میں ایک گھنٹے کے لیے بند کر دیا گیا۔ ارشد کو اس وقت رہا کیا گیا جب باقی صحافیوں نے مداخلت کی۔

29 دسمبر ۲۰۱۷ کو جاگ ٹی وی کے رپورٹر پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اقتصادی معاملات کے مشیر مفتی اسمعیل کی پریس کانفرنس کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ کارکنان نے چینل پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کی آمد کے بعد معاملہ حل کر دیا گیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ایم پی اے انور رضا نے صحافیوں پر 4 دسمبر کے روز اس وقت تشدد کیا جب وہ کراچی میں ناجائز شادی ہال کے تباہ ہونے کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں انور رضا پر کے ڈی اے کے افسران سمیت دنیا نیوز نے ایف آی آر درج کروا دیں۔

22 دسمبر کو ملتان میں جیو نیوز کے کرائم رپورٹر عمران چودھری کے مکان کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ لاہور پریس کلب کے سربراہ کو فون کر کے اطلاع کرنے پر عمران نے بتایا کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے اور نا ہی اسے کسی گروہ کی طرف سے کوئی دھمکی موصول ہوئی تھی۔

23 دسمبر کو ایکسپریس نیوز کے نعیم اصغر کو حزب التحریر تنظیم کی طرف سے دھمکی آمیز خط موصول ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں موجود نیشنل پریس کلب سیفٹی ہب کے سربراہ کو اطلاع دیتے ہوئے نعیم نے بتایا کہ دھمکی ملنے کے بعد ہی انہوں نے پولیس سے مدد مانگ لی تھی۔ پولیس کے اصرار کے باوجود نعیم نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ یاد رہے کہ حزب التحریر ایک بین القوامی اسلامی تنظیم ہے جو پاکستان کو ایک اسلامی خلافت بنانا چاہتی ہے۔

ستمبر ۲۰۱۷ میں ایک سینئر صحافی مطیع اللہ جان پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر جاتے ہوئے اسلام آبا دکے علاقے بارہ کہو میں حملہ کیا گیا۔ صحافیوں پر حملوں کے سلسلے میں اہم پہلو یہ ہے کہ ان پر صرف اس وقت حملہ کیا جاتا ہے جب وہ یا تو اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اپنے گھر میں موجود ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ہراساں کرنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ حملوں میں تقریبا ایک جیسا انداز اختیار کیا جاتا ہے اور حملےکے لئے ایک جیسے لوگ بھیجے جاتے ہیں۔

ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق یکم مئی 2017 سے یکم اپریل 2018 کے واقعات میں سب سے زیاد ہدف بننے والا میڈیم ٹی وی رہا جس کیساتھ منسلک صحافیوں کیخلاف 85 واقعات ریکارڈ ہوئے، صحافیوں کیلئے دیگر خطرناک علاقوں میں دوسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں سترہ فیصد حملے، سندھ میں سولہ فیصد، بلوچستان میں چودہ فیصد اور خیبرپختونخوا میں دس فیصد ،فاٹامیں آٹھ فیصد ریکارڈ کئے گئے۔

اسی طرح جون ۲۰۱۸ میں ہی پاکستان میں تین مختلف مقامات پر تین مختلف واقعات پیش آئے جن میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور صحافی گل بخاری اپنے دفتر جاتے ہوئے راستے سے اغوا کر لی گئیں، تاہم بعد ازاں انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا، دوسری طرف جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے گھر کے آس پاس عسکریت پسند جمع ہوتے رہے یعنی وہ گھر کے اندر ہی محبوس کر دئیے گئے اور ادھر پنجاب میں صحافی اسد کھرل کو “نامعلوم افراد” نے لاہور ائیر پورٹ پر تشدد کا نشانہ بناکر چلے گئے۔

مندرجہ بالا حقائق میڈیا میں جابجا موجود ہیں اور مختلف سائٹس پر دیکھےجا سکتے ہیں۔ ملک میں گھٹن کا یہ ماحول کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ۔ میڈیا ہاوسز کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ صحافیوں کے مسائل کو کوریج دیں اور ان پر ہونے والے حملوں کے بارے میں غیرجانبدارانہ تحقیات کر کے قانونی اداروں کی مدد کریں۔

اگر میڈیا کی طرف سے ہی اس ظلم ستم پر چپ سادھی جائے گی تو یہ سلسلہ آگے چل کر ایک بند گلی کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور فرقہ وارانہ و علاقائی دہشت گردی کی طرح صحافیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملے بھی روز مرہ کا معمول بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے اگر پاکستان میں صحافت کا شعبہ مجروح ہوتا ہے تو اس کا براہِ راست اثر انسانی حقوق اور جمہوری و سرکاری اداروں پر پڑے گا۔

[1] http://www.urdu.fnpk.org/?p=1064

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے