اتائی قیادت اور جذبانی ووٹر

جب کبھی عظمت، وقار، ترقی و خوشحالی، تہذیب و وضعداری کا ذکر ہو تو ہم فورا ماضی کا گھونگھٹ اوڑھ لیتے ہیں، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ صیغہ حال کے دامن میں ایسی کوئی شے موجود نہیں جس پر فخر کیا جا سکے۔ یقین جانیئے بعض اوقات تو یوں لگتا ہے ہم سب اتائی ہیں، معزز سیاستدانوں اور قابل احترام اداروں سمیت اجتماعی ذھنی بانجھ پن اور خود فریبی کا شکار ہیں۔ نہ لیفٹسٹ، لیفٹسٹ رہا ہے، نہ رائٹسٹ، رائٹسٹ، نہ عالم، عالم ہے نہ دانشور، دانشور، بس سب افکار و نظریات کے نام پر منافقت کے زرہ بکتر پہنے خود غرضی کی تلواروں سے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں کہیں پڑھ رہا تھا کوٹ مومن انٹرچینج کے قریبی گائوں کوٹ عمرانہ کا تذکرہ تھا جہاں 150 افراد ایڈز کا شکار ہیں جبکہ 200 اسی مرض کے باعث مر چکے ہیں۔ یہ خوفناک مرض ایک کل وقتی نائی اور جزوقتی اتائی ڈاکٹر کے باعث پھیلا جو کہ خود ایڈز میں مبتلا تھا اور ڈیڑھ سال پہلے دنیا سے کوچ کر چکا ہے۔ آج اس کے انجکشن اور استرے کی زد میں آنیوالے تمام افراد اس موذی مرض کا شکار ہیں۔ جانے کیوں مجھے لگا جیسے کوٹ عمرانہ اور پاکستان ایک جیسی مصیبت کا شکار ہیں، آج جانے کتنے پاکستانی ذھنی ایڈز کا شکار ہیں، فرقہ واریت، مذھبی تعصب، انتہا پسندی، مسلکی منافرت، امیرالمونین جنرل ضیاالحق کی میراث ہیں، مذھبی جنونیت کے خلاف ضرب العضب جاری رہا اور ردالفساد بھی جاری ہے، مگر مرض ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دنیا کسی طور ہم پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں، سو نتیجہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں جسکے ہاتھ میں کشکول ہے۔ کوٹ عمرانہ کے اتائی سے پھیلنے والا جسمانی ایڈز تو شاید چند سالوں اور چند جانوں کے بعد ختم ہو جائیگا مگر امیرالمونین کا عطا کردہ ذھنی ایڈز آج لگ بھگ 40 سال بعد بھی اختتام کی منزل سے کوسوں دور ہے۔

افغان جہاد میں دامے درمے سخنے کودنے کی پالیسی جنرل ضیاالحق کی دین تھی تو پھر یوٹرن لیکر افغان مجاہدین کو امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنے اور اڈوں کو تباہ کرنے کی پالیسی جنرل پرویز مشرف کی پہچان بنی۔ دونوں پالیسیوں کے درمیان 6 ہزار سے زائد فوجی شہادتوں سمیت 75 ہزار سے زائد پاکستانی جان سے گئے، ریاست کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے یہ سوال پوچھنا بھی سنگین ترین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ روشن خیالی، رواداری سے محروم ہو کر فرقہ وارانہ جہنم بن گیا۔ 1979 کے افغان جہاد کے بعد ہر جانب سے ڈالرز، ریال اور یوروز کی برسات، فاٹا میں دنیا بھر کے مجاہدین کا میلہ، ملک بھر میں مدارس اور برادران افغان مہاجرین کی بہار، یقین جانیئے پاکستانی معاشرے کو کلاشنکوف اور ہیروئن کی بہتات سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا مسلکی اور فرقہ وارانہ منافرت کے باعث پہنچا ہے مگر اس بارے میں سوال اٹھانا بھی گناہ ہے۔ آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ یہ جنگ ہماری تھی یا نہیں، ایسے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مجاہدانہ اعتراف کہ دنیا بھر میں وہاب ازم پھیلانے کیلئے فنڈز مغرب کی درخواست پر دیئے گئے، مسلم ممالک میں مساجد و مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں انہوں نے یہ اعتراف بھی کر ڈالا کہ ماضی کی سعودی حکومتیں راستہ بھٹک گئیں اور اب اصلاحات کے ذریعے واپسی کا سفر جاری ہے۔ حضور مزیدار بات یہ ہے کہ اب جبکہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ اور مغرب نے اسلام کے نام پر مسلم ممالک میں دہشتگردوں کی پرورش کی، مسلکی منافرت کے بیج بوئے، ہمیں بری طرح استعمال کیا، مگر کیا خوب ہے کہ اب بھی ہم آنکھیں کھولنے پر تیار نہیں ہیں۔ کیا اب بھی یہ ماننے میں کوئی قباحت ہے کہ ہم دانستہ طور پر اس گھنائونی عالمی سازش کا حصہ بنے۔ اس وقت شاید یہ جنگ ہماری نہ تھی مگر اب تو صرف اور صرف ہماری ہے کیونکہ امریکہ، یورپ اور سعودی عرب ہاتھ جھاڑ کر الگ ہو چکے ہیں۔ مگر حضور سوال یہ ہے کہ عرصہ دراز سے مذھب کے نام پر جہاد کا درس دینے والوں اور اس سے مال بنانیوالوں پر کوئی فرق پڑا؟ مجھ میں تو ہمت نہیں اگر آپ میں ہو تو مذھبی قیادت سے سوال کریں، فوجی آمریت اور سیاسی قیادت کو جھنجھوڑیں، کیا اب بھی عالمی سازش کے تحت افغان جہاد میں پاکستان کو جھونکنے والی اتائی قیادت سے کوئی سوال نہیں کیا جائے، 75 ہزار بیگناہ انسانوں کی جانیں، اربوں کا خسارہ اور معاشرتی خلفشار کا ذمہ دار کون ہے، کیا یہ پوچھنا اب بھی جرم ہے؟

معاملہ صرف ایوب، ضیاالحق اور مشرف کی آمریت تک محدود نہیں، جمہوریت کے نام پر بھی ہمیشہ ریاست اور عوام سے مفادات کا کھیل کھیلا گیا۔ سیاستدانوں کو جب جب موقعہ ملا تو انہیں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں، لوٹ مار اور الزامات سے اتنی فرصت ہی نہیں ملی کہ سنگین مسائل، ریاستی امور اور عوام کی بہتری کیلئے کچھ سوچ سکیں۔ اقتدار کے ہوس میں تمام سیاسی جماعتیں مقتدر قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کا رونا تو روتی رہیں مگر خود کچھ بھی ایسا کرنے میں ناکام رہیں جس کے باعث عوام کا دل جیتا جا سکے۔ سیاست کا اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ آج زرداری صاحب کرپشن کے خلاف اور نواز شریف نظریاتی سیاست کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، دونوں جماعتیں بار بار اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنی ناکامیوں اور نااہلی کو چھپانے کیلئے اختیارات کا رونا روتی نظر آتی ہیں مگر اقتدار کی خواہش آج کل سے بھی زیادہ ہے۔ ہر فوجی آمریت حقیقی جمہوریت کا درس دیتی رہی، جمہوری قائدین عوامی خوشحالی کے نام پر لوٹ مار کرتے رہے اور دینی جماعتیں مذھب کے نام پر دونوں کی تقلید کرتی رہیں۔ تو جناب المیہ ہے کہ کہ ہماری تمامتر قیادت اتائی نوٹنکیوں کے ہاتھ یرغمال رہی ہے اور عوام تماشائی بنے رہے۔ دنیا جانے کہاں نکل گئی عوام آج بھی ساٹھ کی دہائی میں زندگی گزار رہے ہیں، گرتی معشیت، مہنگائی کا طوفان، پانی کی سنگین کمی، بجلی کا بحران، طبی سہولیات، تعلیم اور سستے انصاف کی فراہمی، آمریت اور جمہوریت کی اس میوزیکل چیئر میں عوام کو کچھ بھی تو نہ مل سکا۔ 1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا، آج بنگلہ دیش معشیت میں ہمیں پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ سری لنکا نے بیس سال تامل باغیوں کی خانہ جنگی جھیلی اور آج ایک پرامن و مستحکم ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ فوجی آمریت ہو یا سیاسی جمہوریت، سب کا مقصد اقتدار تھا، عوامی فلاح و بہبود، ترقی، خوشحالی اور استحکام ایسے پرفریب نعرے رہے جس کے ذریعے عوام کو مسلسل بیوقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر جناب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا قصور صرف اتائی قیادت کا ہے؟

آپ کبھی کبھی سب لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ، مگر سب لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بنا سکتے، جناب یہ ارشاد ہے امریکی دانشور صدر ابراہم لنکن کا، تو اب جمہوریت کی اس تعریف کی روشنی میں ذرا پاکستان کا جائزہ لیں۔ اگر چند لوگ بلکہ یوں کہیں کہ اتائی قیادت ستر سالوں سے پاکستانی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار تو ہم خود ہیں جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے، کبھی غاصب آمروں کو مسیحا جان کر خوش آمدید کہتے ہیں تو کبھی خود غرض جمہوری قائدین پر جانیں نثار کرتے ہیں۔ پانچ سال بعد جب ووٹ کے ذریعے صحیح قیادت کے انتخاب کا معاملہ ہوتا ہے تو دماغ کے بجائے دل کے فیصلے پر انگوٹھا لگاتے ہیں، تو سرکار جو قومیں جذبانی فیصلے کرتی ہیں پھر انجام تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے تو رونا کس بات کا !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے