بلاول بھٹو زرداری مالاکنڈ میں

مالاکنڈ کا حلقہ این اے آٹھ قومی اور باہر سے آئے ہوئے لیڈروں کی ممکنہ پنجہ آزمائی کی وجہ سے ملک گیر اہمیت اختیار کرگیاہے پیپلزپارٹی کے سابق سنیٹر فرحت اللہ بابر اور بیرسٹر مسعود کوثر نے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کاغذات نامزدگی کل پیر کے روز جمع کرائی جبکہ متحدہ مجلس عمل کے صوبائی آمیر مولانا گل نصیب خان پہلے ہی جمع کراچکے ہیں دیگر رہنمائوں میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما مریم نواز شریف ، صوبائی صدر امیر مقام اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کاغذات نامزدگی کی گرم خبریں توسیع کی دی گئی ڈیڈلائن گذرنے کے ساتھ ہی سرد ہوگئی ہے اور ان کی جانب سے خاموش بلکہ واضح پیغام ملا ہے کہ ان کا اس حلقے میں کوئی دلچسپی نہیں تاہم مقامی لیڈر شپ اورکارکن بلاول زرداری بھٹو کے مقابلے میں اپنی لیڈر شپ کو یہاں سے الیکشن لڑنے کی مسلسل دعوتیں دے رہے تھے اور دعوے کئے جارہے تھے کہ بلاول کے مقابلے میں ان کی لیڈر شپ ضرور قسمت آزمائی کریں گی تاہم ایسا نہیں ہوسکا ۔امیر مقام کے متعلق تو کہا جاتاہے کہ وہ مالاکنڈمیں پارٹی کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے اس حلقے کے پیچھے ہنس پڑتے ہیں لیکن مقامی لیگی یہاں سے الیکشن لڑنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ‘شاید وہ اپنی کشتی پارکرانا چاہتے تھے دوسری طرف امپورٹیڈ امیدواروں کی آمد کو عوام اپنے لیے ہتک اورتذلیل سمجھنے لگے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک بڑا حلقہ باہر سے آئے امیدواروں کو سبق سکھانے کی مہم میں جُت گیا ہے۔ اسی حلقے پر تحریک انصاف کے سابق ممبرقومی اسمبلی جنید اکبر کو دوبارہ ٹکٹ ملنے کی وجہ سے ان کااصل مقابلہ بلاول بھٹو اورگل نصیب خان کے ساتھ ہوگا تاہم مقامی سطح کے دیگر امیدوار ان بھی میدان میں موجود ہیں جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے انعام اللہ خان ، تحریک انصاف ہی کے رازق جان ایڈوکیٹ اور ڈاکٹر فضل محمد کے علاوہ مسلم لیگ ن سے سجاد احمد نے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں ۔

دلچسپ اور کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کے لیے ابھی وقت باقی ہے مگر فی الوقت مذکورہ امیدواروں کو پارٹی کے اندر جس صورت حال کا سامنا ہے یقینا آگے جاکران کے لیے پریشانی کا سبب ضروربنے گی اور کچھ نئے نئے انکشافات سامنے آئیں گے جس سے کئی پارٹیوں کا گراف بلند تو کئی پستی کی جانب گامزن ہوں گی یہاں کسی ایک کا جیت جانا تو طے ہے ہی مگر یہ تبصرہ کرنا کہ فلاں امیدوار جیت جائے گا فی الحال ممکن نہیں ۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے لیے اگرچہ یہ حلقہ بظاہر اہمیت نہیں رکھتا اور نہ انہیں اس حلقے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تاہم جس انداز میں اس حلقے تک بلاول کو لے آیا گیا ہے اُس پر پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بحث ومباحثے کے علاوہ انگلیاں اٹھائی جارہی ہے کہاجاتا ہے کہ بعض حلقوں نے بلاول کو لاکے اس حلقے سے سابق وفاقی وزیر اور ٹکٹ کے خواہش مند لعل محمد خان کا سیاسی پتہ کاٹ ہے کیونکہ ایک عرصہ سے لعل خان صوبائی صدر ہمایوں خان اور کسی حدتک ضلعی صدر و ضلع ناظم سید احمد علی شاہ باچہ کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور جہاں بھی موقع ملتا دونوں کی ذات اور عہدوں کو نشانہ بنا دیتا جس کی وجہ سے کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ ان سے جان چھوٹے ،گذشتہ دنوں لعل خان اور صوبائی صدر انجینئر ہمایوں خان کے مابین سالوں سے چلی آئی اختلافات ایک بار پھر منظر عام پر آنا شروع ہوگئی تو صوبائی سمیت مرکزی کابینہ نے بھی اس کے خلاف پیش بندی کی لعل خان کی منشا رہی کہ اگر عمر رسیدگی کی وجہ سے انہیں اس بار ٹکٹ نہیں دی جاتی تو کم ازکم ان کے صاحب زادے اسد لعل خان کو ضرور دی جانی چاہیے تاہم دوسری طر ف مسلسل ہٹ دھرمی اور ضرورت سے زیادہ دبائو ڈالنے کی وجہ سے صوبائی صدر ہمایوں اورضلعی تنظیم اس کے حق میں نہ تھی ا اور ایک ایسی چال چلی کہ لعل خان کی بولتی ہی بند کردی ااوربلاول زرداری بھٹو کو لے آکرگویا لعل خان کو شکایت یا احتجاج کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا وگرنہ دوسری صورت میں لعل خان کھبی بھی چھین سے نہیں بیٹھتے ضرور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلیتے۔ اس صورت حال میں شاید زردری یا بلاول زرداری بھٹو کو اعتماد میں نہیں لیا جاچکا ہوگا اور یا اِنہی کی ایمائ پر یہ گیم چلائی گئی اس کا منظر نامہ کچھ واضح نہیں بلکہ دھندلا ہی دھندلاہے لیکن لگ رہا ہے کہ اس فیصلے کو مذکورہ دونوں مرکزی رہنمائوں کی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ لعل خان کو ہٹانا اتنا آسان نہیں جس طرح انہیں ہٹا دیا گیا دوسری بات یہ کہ اس سے قبل آصف زرداری نے اسلام آبادہی میں لعل خان اور ان کے حامیوں کو منا کر ہمایوں خان کے گلے لگادیا تھا اور اختلافات ختم کرنے کے لیے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف بھی اٹھوائی گئی تھی مگر شومئی قسمت لعل خان ہمیشہ کی طرح کچھ اپنے حامیوں کے ہاتھوں پھر آپے سے باہر ہوجاتے اور آج یہ نتیجہ حاصل کرلیا کہ خود بھی قومی نشست سے محروم ہوگئے ساتھ ہی بیٹے کی سیاست بھی دفن کردی ۔اب کے بار یہ بوجھ پیپلزپارٹی مزید اٹھانے سے قاصر نظر آئی اور بجائے کوئی شوکاز نوٹس دینے یا پارٹی سے نکالنے کی تحریری اعلانات کے ’’ نہ سانپ مرا ، نہ لاٹھی ٹوٹی ‘‘ کی مصداق لعل خان کو حکومتی ایوانوںمیں جانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا .

اس فیصلے سے جہاں لعل خان اس قومی نشست سے محروم کردئیے گئے وہی ہمایوں خان کو اچھا خاصہ فائدہ ملا ہے کیونکہ پی کے اٹھارہ میں ہمایوں خان کے مقابلے میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار امجد علی شاہ ، تحریک انصاف کے سابق ممبرصوبائی اسمبلی شکیل احمد سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے اعجاز علی خان کوئی معمولی امیدوار نہیں بلکہ مضبوط امیدوار تصور کئے جاتے ہیں اور انہیں شاید اس بڑے منجدھار سے نکلنے کی راہ نہ مل پاتی مگر بلاول بھٹو کے آنے سے ان کی اپنی ڈوبتی نائو بھی پار لگ سکے گی گویا ہمایوں خان کو ایک تیر سے دوشکار والی محاورے سے کافی فائدہ حاصل ہوگیا ہے ۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹوں کے عمل نے بھی کافی مشکلات کھڑی کررکھی ہے اور ٹکٹیں کم اور امیدوار زیادہ ہونے کی وجہ سے دونوںتحصیلوں میں ایک طوفان برپا ہوا ہے اس سے قبل کہ امیدواروںکی نامزدگیاں مزید دیر کرتی پارٹی نے اعلان کرکے جلتی پرپانی پھیر دی ہے ورنہ صورتحال ذات پات اور سوچ و نظریے تبدیل کرنے تک پہنچ چکی تھی اب بھی ٹکٹیں نہ ملنے والے امیدوار’’ بغل میں چھری، منہ میں رام رام ‘‘کی پالیسی پر مجبوراً عمل پیرا ہوئے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نامزد امیدوارسابق ایم این اے جنید اکبر کے مقابلے میں سابق ضلعی صدر ڈاکٹر فضل محمد اور ضلع کونسلر رازق جان ایڈوکیٹ نے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار مولانا گل نصیب خان کے مقابلے میں انہی کے پارٹی جنرل سیکرٹری مفتی کفایت اللہ اور مولانا شمس الحق نے کاغذات نامزدگی جمع کرائی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے