قرآن کریم اور سماجی تبدیلیاں

اس سال ہماری گفتگو کا موضوع ’’قرآن کریم اور انسانی سماج‘‘ ہے جس کے ایک حصہ پر ۳ رمضان المبارک کی نشست میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں کہ اس وقت کے انسانی سماج کے لیڈروں نے بجا طور پر یہ بات سمجھ لی تھی کہ قرآن کریم سماج کے پورے نظام کو تبدیل کرنے کی بات کر رہا ہے اس لیے انہوں نے ہر ممکن مزاحمت کی اور اس مزاحمت کی مختلف صورتوں اور مراحل کا ہم نے تذکرہ کیا تھا۔

آج کی گفتگو اس کے دوسرے پہلو پر ہے کہ مزاحمت کے تمام مراحل کا سامنا کرتے ہوئے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳ برس کے عرصہ میں انسانی سماج کو جن تبدیلیوں سے متعارف کرایا وہ تبدیلیاں کیا تھیں؟ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے ’’ایہا الناس‘‘ کہتے ہوئے لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دی تھی اور ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ کی آواز لگائی تھی تو اس وقت کے انسانی معاشرہ کا نقشہ کچھ اور تھا، مگر اس کے صرف ربع صدی بعد حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کو گواہ بنا کر اپنا ایجنڈا مکمل کر لینے کا اعلان کیا تھا تو سماج اور معاشرہ اس سے بالکل مختلف شکل اختیار کر چکا تھا۔ اور پھر اس سماجی انقلاب نے ایک صدی کے دوران ہی دنیا کے تین براعظموں تک اپنا دائرہ وسیع کر لیا تھا۔ وہ سماجی تغیرات اور معاشرتی تبدیلیاں کیا تھیں، ان پر گفتگو بہت زیادہ وقت اور تفصیل کا تقاضا کرتی ہے جس کی یہ مختصر نشست متحمل نہیں ہے اس لیے معاشرتی زندگی میں اس حوالہ سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مختصرًا صرف اس طور پر ہی تذکرہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے چند اہم دائروں میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں میں سے چند کا ذکر کر دیا جائے۔ چنانچہ صرف تعارفی انداز میں ایک فہرست کی صورت میں ان تغیرات کا ذکر کروں گا جن سے قرآن کریم کے نزول اور جناب نبی کریمؐ کی بعثت کے بعد انسانی معاشرہ روشناس ہوا۔

(۱) ان میں سے پہلا دائرہ عقیدہ کا ہے کہ جناب رسول اللہ کی بعثت مبارکہ کے وقت ہر طرف شرک اور بت پرستی کا دور دورہ تھا، ہر قبیلے نے اپنے معبود الگ تراش رکھے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ کے ماحول میں بھی سینکڑوں بتوں کی پوجا کی جاتی تھی جبکہ بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور انہیں اپنا مشکل کشا اور حاجت روا کہہ کر پکارتے تھے۔ جناب نبی اکرمؐ نے بت پرستی اور شرک کے اس ہمہ گیر ماحول کو مسلسل محنت اور جدوجہد کے ذریعے ختم کیا کہ آپؐ کے وصال کے وقت پورے جزیرۃ العرب میں نہ کوئی بت خانہ قائم رہا تھا، نہ کوئی بت موجود تھا اور نہ ہی بت پرستی اور شرک کا ماحول کسی طرف دکھائی دے رہا تھا۔

(۲) دوسرا بڑا دائرہ معاشرتی اور خاندانی زندگی کا تھا جس کے تغیرات اور تبدیلیوں کی نوعیت کچھ اس طرح تھی کہ: زندہ درگور کی جانے والی بچی کو زندگی کا حق مل گیا، عورت کا زندگی کا حق تسلیم کیا گیا اور عورت کو زندگی کے حق سے محروم کر دینے کی معاشرتی روایت کا خاتمہ ہوگیا۔ عورت کو وراثت کا حق مل گیا اور اس کی مالی خودمختاری کو تسلیم کر لیا گیا۔عورت کو رائے کا حق اور اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ باقاعدہ زندگی بھر کے لیے نکاح کے سوا مرد و عورت کے جنسی تعلق کی وہ تمام صورتیں ممنوع قرار دے دی گئی تھیں جو اس معاشرہ میں جنسی تعلق کی جائز صورتیں سمجھی جاتی تھیں۔ زنا کو نسب کا سبب تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اور زنا کی سنگین سزا مقرر کی گئی۔ تین سے زیادہ طلاقوں کا حق ختم کر دیا گیا اور مسلسل (مرحلہ وار) طلاقیں دیتے ہوئے عورت کو معلق رکھنے کی مکروہ معاشرتی روایات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ چار سے زائد شادیوں کی ممانعت کر دی گئی اور جن لوگوں نے اس سے زیادہ شادیاں کر رکھی تھیں ان کی چار سے زائد بیویوں کو ان سے الگ کر دیا گیا۔ لوگ بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھا کر اسے لمبے عرصے تک لٹکائے رکھتے تھے، قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسی قسم اٹھانے والے خاوند اگر چار ماہ کے اندر رجوع نہیں کریں گے تو نکاح ختم ہو جائے گا۔ لوگ بیوی کو ماں بہن کہہ کر حرام کر لیتے تھے، قرآن کریم نے کہا کہ زبان کے ساتھ کہہ دینے سے کوئی عورت ماں یا بہن نہیں بنتی، البتہ اس قبیح حرکت کا کفارہ دینا ہوگا۔ منہ بولے بیٹے اور دیگر زبانی رشتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ اس طرح خاندانی نظام میں جو تبدیلیاں قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے کیں ان کی فہرست بہت طویل ہے جن میں سے چند ایک کا میں نے تذکرہ کیا ہے جن کی وجہ سے خاندانی نظام کا پورا ڈھانچہ تبدیل ہو چکا تھا۔

(۳) تجارت و معیشت کے دائرہ میں سود، سٹہ اور جوئے کو ممنوع قرار دیا گیا۔ بیچی جانے والی چیز اور اس کی قیمت کے واضح تعین کے بغیر تمام مبہم سودے ناجائز قرار پائے، معیشت و تجارت کے تمام شعبوں میں حلال و حرام کے واضح اصول اور احکام طے کر دیے گئے اور تجارت کا ایک صاف ستھرا نظام متعارف ہوا۔ رشوت، چوری، ڈکیتی، فریب کاری اور غصب و جبر کے ذریعے حاصل کی جانے والی دولت کو حرام قرار دیا گیا۔ بیت المال کی صورت میں فلاحی ریاست ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کو متعارف کرایا گیا اور ریاست و حکومت کو شہریوں کی ضروریات کا کفیل اور ذمہ دار قرار دیا گیا جس سے خاندانی نظام کی طرح تجارتی اور معاشی نظام مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔

(۴) سیاسی حوالہ سے اتنی بڑی تبدیلی ہوئی کہ اس نے نہ صرف جزیرۃ العرب بلکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اس خطہ کے لوگ قبائلی سسٹم کے طور پر زندگی بسر کر رہے تھے اور ریاست و حکومت کے تصور سے نا آشنا تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ریاست مدینہ‘‘ قائم کر کے حکومت و ریاست کا سسٹم متعارف کرایا جو ابتدا میں مدینہ منورہ اور اردگرد کے محدود علاقہ میں تھا لیکن اس نے صرف دس سال کے عرصہ میں پورے جزیرۃ العرب کو حصار میں لے لیا۔ چنانچہ آنحضرتؐ کے وصال تک یمن، بحرین اور نجران بھی اس ریاست و حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ جبکہ اسی ریاست و حکومت نے حضرت ابوبکرؓ کے دور میں ’’خلافت‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور وہ صرف ایک صدی کے دوران دنیا کے تین براعظموں تک پھیل گئی، اس طرح ریاست و حکومت کے تصور سے ناواقف لوگ ’’عالمی حکومت‘‘ کے نظام اور انٹرنیشنل سسٹم سے متعارف ہوئے۔ جناب رسول اکرمؐ نے نہ صرف ریاست و حکومت کا تصور دیا اور اسے عملاً قائم کر کے دکھایا بلکہ اس کی نظریاتی بنیادیں بھی متعین کر دیں۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں قرآن کریم اور وحی الٰہی کو تمام تر فیصلوں کی بنیاد بنایا اور آپؐ کے جانشین حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کی بنیاد قرآن و سنت کو قرار دیتے ہوئے اپنے پہلے خطبہ میں واضح اعلان کر دیا کہ وہ حکومت کا نظام قرآن و سنت کے دائرہ میں چلانے کے پابند ہیں اور قرآن و سنت سے خدانخواستہ انحراف کی صورت میں ملک کے شہریوں پر ان کی اطاعت فرض نہیں ہے۔ گویا حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلق اور وفاداری کی اساس ہی قرآن و سنت قرار پائی اور اس طرح ایک نظریاتی حکومت و ریاست دنیا کے سامنے آئی۔

یہ صرف چند معاشرتی دائروں کی کچھ سماجی تبدیلیوں اور معاشرتی تغیرات کا میں نے ذکر کیا ہے۔ جبکہ اس سماجی انقلاب نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور سطحوں کو مکمل انقلاب سے دوچار کر دیا تھا اور تاریخ کے پاس اسے اسلام کا اعجاز اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ قرآن کریم نے صرف ربع صدی کے عرصہ میں انسانی سماج کے ایک بڑے حصے کو ہمہ گیر انقلاب سے عملاً روشناس کرایا جو تھوڑے ہی عرصہ میں عالمی نظام کی صورت اختیار کر گیا اور پھر اس نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک نسل انسانی کے ایک بڑے حصے پر حکمرانی کی۔ یہ ہمارے جامعات اور دینی مراکز و مدارس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نبویؐ انقلاب کو تحقیق و ریسرچ کا موضوع بنائیں اور اس کے سینکڑوں تاریخی اور سماجی پہلوؤں کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کریں اور خاص طور پر مسلمانوں کی نئی نسل کو اس سے متعارف کرائیں۔

گفتگو کے آخر میں اس بات پر غور و فکر کی دعوت دینا چاہوں گا کہ آج ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کو جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ جناب نبی کریمؐ نے جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے مشن کا آغاز کیا تھا اور جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی جدوجہد کے کامیاب ہوجانے کا اعلان فرمایا تھا۔ ہم ان دونوں میں سے کس مقام پر کھڑے ہیں؟ یہ سوال میرے لیے، آپ کے لیے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ اور اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے کہ ہم اس وقت حجۃ الوداع کے ماحول میں تو بہرحال نہیں ہیں بلکہ صفا پہاڑی کے اعلان والے ماحول سے زیادہ قریب ہیں تو پھر قرآن کریم کا پیغام آج ہمارے لیے یہی ہے کہ ہم اس سماجی انقلاب کے لیے پھر سے محنت کریں جو ہمیں اس معاشرتی ماحول سے دوبارہ روشناس کرا دے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم ہاتھ میں لے کر ربع صدی کی محنت سے قائم کیا تھا۔ یہی قرآن کریم کا پیغام ہے اور یہی جناب رسول اکرمؐ کی سنت و اسوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے