کیا ننگے پاؤں چلنے سے پارٹیاں چلتی ہیں ؟؟

الیکٹیبلز شامل کر کے تحریک انصاف نے پارٹی میں وہ ہجوم اکٹھا کر دیا ہے کہ اسے اپنے نظریاتی کارکنوں کا سامنا کرتے ہوئے مشکلات پیش آ رہی ہیں ، دس سال تک پارٹی کا مقدمہ لڑنے والے کارکنان امیدواروں کی لسٹوں میں کہیں نظر نہیں آ رہے .

تحریک انصاف کے کارکن حیران ہیں کہ کیا یہی وہ تحریک انصاف ہے جس کا وہ گزشتہ دس سال سے دفاع کر رہے تھے ؟ وہ تمام لوگ جو کل تحریک انصاف کے ولن تھے آج تحریک انصاف کی صفوں میں ہیرو کے طور پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں . تحریک انصاف کے سابقہ اراکین اسمبلی جنہوں نے اپنے حلقوں میں پارٹی کو تنظیم سازی کے ذریعے مضبوط بنایا آج پارٹی پالیسیوں سے نالاں بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا انہیں تبدیلی کے نام پر یرغمال بنایا گیا تھا .

تحریک انصاف کے کارکنوں میں اس بے چینی اور اضطراب کا مسلم لیگ ن مکمل فائدہ اٹھانے کی تیاری کر چکی ہے اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں . ایک تو تحریک انصاف کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں . وہ پارٹی جو نوجوانوں کی اقتدار کے عمل میں شراکت کا نعرہ لیکر اٹھی تھی ، اس پارٹی نے جن لوگوں‌ کو امیدوار نامزد کیا ہے ،ان میں نوجوان دس فیصد بھی نہیں . بیس سے زائد ایسے لوگ بھی ہیں جن کی عمریں ستر برس کے قریب ہیں . وہ طبقہ جو تبدیلی کے لیے متحرک ہوا تھا اب وہ اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کر رہا ہے ، وہ روایتی سیاستدانوں کے مقابلے کے لیے میدان میں اتر رہا ہے ، کارکنان کی ایک بڑی تعداد اپنے نظریاتی لوگوں کیساتھ ہے تاہم وہ کنفیوژ ہیں کہ وہ اس وقت کس کے ساتھ کھڑے ہیں .

سوال یہ ہے کہ اقتدار کے خواہشمند عمران خان کیا اپنی پارٹی کا تشخص بچا پائیں گے ؟

تحریک انصاف نے بڑے بڑے اعلانات ضرور کیے تاہم انہیں عملی جامہ پہنانے میں دعوؤں جیسا شور نظر نہیں آیا . تحریک انصاف نے پورے پانچ سال پریشر ٹیکٹس اور میڈیا ہائپ میں گذار دیے اور جب انتخابات کا وقت آیا تو پارٹی ٹکٹ ان لوگوں‌ کو دے دیے جن کے خلاف پورے پانچ برس جنگ کرتے رہے . سوال یہ ہے اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں تحریک انصاف اپنی پارٹی بچا پائے گی ؟ یا جس مقصد کے لیے پرانے چہرے ساتھ ملا رہی ہے انہیں جتوا پائے گی ؟

اس وقت پارٹی میں کھینچا تانی عروج پر ہے . جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی اور علیم خان کے درمیان سرد جنگ ہر جگہ زیر بحث ہے .جہاں پارٹی رہنما آپس میں دست و گریبان ہوں وہاں نقصان پارٹی کا ہی ہوتا ہے ، کپتان تبدیلی کے لیے تیار کیے گئے کارکنوں کو پرانے چہروں پر راضی رکھ پائیں گے ؟ لودھراں الیکشن میں جہانگیر ترین کے رویے کی وجہ سے تحریک انصاف الیکشن ہار چکی ہے. دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں چک جھمرہ فیصل آباد سے فواد احمد چیمہ نے پچاس ہزار ووٹ لیے تھے، دن رات ایک کر کے پارٹی کو مضبوط کیا . وہ انتخابات کی تیاریاں کر رہے تھے کہ انہیں اچانک اطلاع ملی کہ انتخابات وہ نہیں بلکہ پارٹی میں حال ہی میں شامل ہونے والے ساہی گروپ کے لوگ لڑیں گے . حد تو یہ ہے کہ وراثت کے خلاف باتیں کرنے والوں نے ایک ہی گھر کے تین افراد کو ٹکٹ دے دیے . راولپنڈی سے شاہد گیلانی بھی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ کر تحریک لبیک میں چلے گئے ہیں . کئی لوگ تو ابھی تک سکتے سے باہر ہی نہیں نکل سکے کہ ان کی پارٹی میں یہ بھی ہو سکتا ہے .

عمران‌ خان تبدیلی کی بات کر رہے تھے تاہم یہ تبدیلی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے نام تھا . وہ اپنی تقریروں میں یورپ کے نظام کی مثالیں دیتے رہتے تھے لیکن ایک کریمنل ریکارڈ کے حامل شخص کا نام ای سی ایل سے نکلوا کر ساتھ لے گئے . وہ نوجوانوں کو اقتدار میں شریک کرنے کی باتیں کیا کرتے تھے تاہم دس فیصد نوجوانوں کو بھی ٹکٹ نہیں دیے گئے . اب یہ جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی تحریک انصاف لگتی ہے . تحریک انصاف کو اپنے رویوں پر غور کیلئے بشری بی بی سے ایک مراقبے کی درخواست کرنی چاہیے کیونکہ پارٹیاں ننگے پاؤں چلنے سے نہیں چلتیں بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ چلتی ہیں .

بشکریہ :روزنامہ نئی بات

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے