امریکا اور شمالی کوریا کے تعلقات میں ڈرامائی موڑ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن نے 67 سال بعد تمام تلخیاں، مخالفانہ بیانات اور دھمکیاں ایک طرف رکھ کر ہاتھ ملالیا۔ سنگاپور کے جزیرہ سینٹوسا میں ہونے والی تاریخی ملاقات میں شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا معاملہ سرفہرست رہا، دونوں حریف رہنماؤں کے درمیان ایک نئے، مضبوط اور مربوط تعلقات کے لیے جامع اور تفصیلی تبادلہ خیال ہوا تاکہ جزیرہ نما کوریا میں پائیدار اور مستحکم امن کے قیام کی بنیاد رکھی جا سکے۔

امریکا اور عوامی جمہوریہ کوریا، جو شمالی کوریا کے نام سے معروف ہے، کے درمیان گزشتہ 67سال سے جنگی صورتحال چلی آرہی تھی، جو امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن کے درمیان غیر متوقع طور پر ہونے والی متذکرہ بالا ملاقات کے بعد بظاہر بڑی حد ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دونوں ملکوں میں تناؤ اور کشیدگی گزشتہ تقریباً سات دہائیوں کے دوران ہمیشہ برقرار رہی اور کبھی بڑے پیمانے پر برف پگھلنے کے آثار دنیا کو نظر نہیں آئے، تاہم ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد صورتحال کی گمبھیرتا میں اس وقت اضافہ ہوا جب نئے امریکی صدر نے شمالی کوریا کو کھلے عام دھمکانا شروع کردیا۔ اس سے قبل بش جونیئر نے بھی شمالی کوریا کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا تھا، جو ان کے نزدیک ”بدی کے محور” تھے، مگر بش جونیئر کے دور میں شمالی کوریا نے ترکی بہ ترکی رد عمل دینے کے بجائے امریکی رویے اور صدارتی بیانات کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دی، جس سے کشیدگی کی فضا روایتی اور معمول کے دائرے سے آگے نہیں بڑھی، مگر اس بار ٹرمپ کی ٹوئٹ مشین سے گولا نکلتے ہی دوسری طرف شمالی کوریا کے نوجوان رہنما نے بھی فوری رد عمل دینے کا سلسلہ شروع کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ کوئی قرض باقی نہیں رکھنا چاہتے اور کسی صورت امریکا سے نہیں دبیں گے، جس سے نوبت یہاں تک آگئی کہ دونوں ملکوں نے تباہ کن ہتھیاروں کا رخ ایک دوسرے کی طرف موڑ دیا، امریکا نے خطے میں اپنے اتحادیوں، جو شمالی کوریا کے سخت حریف سمجھے جاتے ہیں، کے ساتھ ہنگامی جنگی مشقیں شروع کر دیں اور جناب کِم جونگ نے طیش میں آکر امریکا اور اس کے اتحادیوں پر ایٹمی ہتھیار چلانے کی دھمکیاں دیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کی تیاریوں کا عمل تیزی سے جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا۔ یہ دنیا کے امن کے لیے بڑی خطرناک بات تھی اور بات مزید بڑھ یا بگڑ جانے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ پورا جزیرہ نما کوریاایک بار پھر 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی جنگ کی طرح آگ و خون کی خوفناک بارش میں گھر جائے گی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکا اور شمالی کوریااس ساری کشیدگی، تناؤ اور جنگی صورتحال میں در اصل بنیادی فریق نہیں ہیں۔ بنیادی فریق جزیرہ نما کوریا کے دو ممالک شمالی اور جنوبی کوریا ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی رنگ، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والی قومیں ہیں۔ سرد جنگ کی سخت نظریاتی کش مکش کے دنوں میں خطے میں کمیونزم اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دو متضاد نظریے رکھنے والوں کے درمیان ایک ہولناک ”گرم جنگ” چھڑ گئی۔ جزیرہ نما کے شمالی خطے میں سوویت یونین اور چین کے ہم نوا کمیونسٹ غالب آگئے اور انہوں نے منظم فوج تشکیل دے کر جنوب کی طرف پیش قدمی کی، جہاں کمیونزم مخالفین کا غلبہ تھا۔ اس طرح ایک ہی رنگ، نسل و قوم کے دو مختلف فکری و نظریاتی دھاروں میں خطرناک مڈبھیڑ ہوگئی۔ شمالی کوریائی افواج نے جنوب کو تاخت و تاراج کیا اور سیئول پر قابض ہوگئیں۔ انہیں چین اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ امریکا جنوبی کوریائی نظم و نسق کا حلیف تھا، تاہم شمال کی یلغار کے سامنے جنوبی کوریا اور اس کا حلیف امریکا دونوں ہی نہ ٹک سکے۔ ڈیڑھ سال کے دوران خطے میں اس قدر تباہی مچی کہ صرف امریکا کے ہی چالیس ہزار کے قریب فوجی اور سول شہری مارے گئے۔ شمالی کوریا کی افواج کے ہاتھوں جنوبی کوریا اور اتحادی امریکا کی فوجوں کو شدید نقصان اور ہزیمت کا سامنا تھا۔ عنقریب پورے جزیرہ نما کوریا پر شمالی کوریا کا قبضہ مکمل ہونے والا تھا کہ جنگ میں نیا موڑ آگیا۔ سلامتی کونسل کا ایسے دن اجلاس ہوا، جس دن کونسل کا مستقل اور ویٹو پاور رکن روس حاضر نہیں تھا۔ روس کی غیر حاضری کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل نے بالاتفاق کوریا میں اقوام متحدہ کی جانب سے فوجی مداخلت کا فیصلہ کرلیا، چنانچہ کچھ ہی دنوں میں اقوام متحدہ نے فوجوں نے مداخلت کرکے جنوبی کوریا سے شمالی کوریا کی افواج کا قبضہ چھڑا کر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔

جنوبی کوریا شمالی کوریا کے حملے کے دوران بری طرح تباہ ہوچکا تھا، اقوام متحدہ کی مداخلت کے بعد جنگ دوسرے فیز میں داخل ہوگئی اور صورتحال یکسر بدل کر رہ گئی۔ شمالی کوریا کی افواج نئے حالات کا مقابلہ نہیں کر پائیں اور پسپا ہوتی پٹتی چلی گئیں۔ کچھ ہی عرصے میں شمالی کوریا تباہ ہو کر رہ گیا۔ حالت یہ ہوئی کہ امریکی پائلٹوں کو با قاعدہ یہ شکایات کرنی پڑیں کہ شمالی کوریا کے دار الحکومت پیانگ یانگ میں اب کوئی ایسا ہدف باقی نہیں بچا ہے، جس کو نشانہ بنایا جاسکے۔ یہ اس بات کا غماز ہے کہ سیئول کے بعد اب پیانگ یانگ بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، جس سے اس خطے میں انسانیت کی تباہی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دو سال جاری رہنے کے بعد تیسرے سال کوریا کی جنگ کا خاتمہ تو ہوگیا، مگر امریکی مداخلت کے باعث شمالی اور جنوبی کوریا میں اتحاد نہ ہوسکا اور ایک ہی رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والی قوم دو مستقل نظریاتی دشمن ملکوں کی صورت میں تقسیم ہوکر رہ گئی۔ بعد کی سات دہائیاں دونوں ملکوں میں سخت کشیدہ تعلقات کی تاریخ ہیں۔ اس دوران امریکا نے اپنی بالا دستی کے زور پر شمالی کوریا کو طرح طرح کی پابندیوں سے تنہائی کا شکار کردیا، جس سے وہاں کے عوام کی زندگی مشکلات سے بھر گئی، جبکہ جنوبی کوریا امریکا اور مغرب کی نوازشات سے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگیا۔ شمالی اور جنوبی کوریا میں تناؤ جاری تھا اور امریکا کے ساتھ بھی کشیدگی عروج پر تھی کہ رواں سال کے آغاز میں اچانک شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کے تئیں نرم پڑنے کا اشارہ دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آتے آتے معاملہ ٹرمپ اور جناب کِم کی ملاقات پر منتج ہوگیا۔

بلا شبہ یہ ایک تاریخ ساز ملاقات تھی اور دنیا میں امن کے خواہشمندوں کے لیے حوصلہ افزا بھی۔ تاہم اس ملاقات کے مثبت اثرات مرتب ہونے کی خواہش کے ساتھ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکا کی ضد کے باعث خطے میں امن کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔ اس طویل اور تاریخی تنازع کے اصل فریق چونکہ شمالی اور جنوبی کوریا ہیں، اس لیے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا کو امن کی طرف پیشرفت کی خاطر اب درمیان سے نکل جانا چاہیے اور جزیرہ نما کوریا کے ان دو ملکوں کو ہی آپس میں اپنے مسائل حل کرنے کا آزادانہ موقع دینا چاہیے۔ تبھی جا کر حالات میں جوہری تبدیلی آسکتی ہے۔

آج کی دنیا میں جنگیں صرف متعلقہ فریقوں تک محدود نہیں رہتیں۔ ان کی تباہی اور ہولناکی کے اثرات پوری دنیا کو محیط ہوجاتے ہیں، اس لیے جہاں کہیں جنگی صورتحال کا خاتمہ ہو، اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔امریکا نے سرکش شمالی کوریا کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اپنی سلامتی کو درپیش ایک بڑا خطرہ کم کرلیا ہے تاہم پوری دنیا کے امن و استحکام کو خطرہ بننے والے مسائل بالخصوص اسلامی دنیا کے تصفیہ طلب معاملات کے حل کی طرف اس کی جانب سے کوئی پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ٹرمپ انتظامیہ عالم اسلام سے تعلقات کو نشیب کی طرف لے جانے کی ہی پالیسی پر گامزن ہے جبکہ دنیا میں پائے دار امن و استحکام کے قیام کے لیے فلسطین اور کشمیر سمیت اسلامی دنیا کے مسائل کا حل ناگزیر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے