عمران خان کا شکریہ کیوں؟

ان سے کوئی ذاتی لڑائی ہے اور نہ میں ان کا کوئی حریف ہوں۔ وہ دن رات وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھنے والے سیاستدان اور میں ایک معمولی مزدور ۔ ایوان اقتدار میں پرویز مشرف بیٹھاہو، آصف علی زرداری، میاں نوازشریف یا کوئی اور ، اپنی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنا۔مجھے یہی لکھنے اور بولنے کی مزدوری کرنی ہے۔ یوں وہ وزیراعظم بنتے ہیں یا محروم رہ کر ہاتھ ملتے ہیں، مجھے ذاتی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایسا بھی نہیں کہ مجھے ان کے منظور نظر صحافی بننے کے مواقع نہیں ملے۔ اللہ گواہ ہے کہ سینکڑوں مواقع ملے اور درجنوں لوگوں نے کوششیں کیں لیکن میں کبھی اپنے آپ کو ان کے قریب جانے پر آمادہ ہی نہ کرسکا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں دل میں ان کے لئے پیدائشی بغض رکھتا ہوں بلکہ دور طالب علمی میں کرکٹر عمران احمد خان نیازی کا فین رہا اور شوکت خانم اسپتال کی چندہ مہم میں ہزاروں لوگوں کے آگے جھولی بھی پھیلائی ۔شاید ماں کی دعائوں کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے مجھے دور طالب علمی میں ہی ان کوپہچاننے کی توفیق بخشی ۔

ڈاکٹرفاروق خان شہید میرے بڑے بھائی بھی تھے اور استاد بھی ۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور ابتدائی دستور بھی ان کا تحریر کردہ ہے ۔ جب نیازی صاحب کو سیاست میں آنے کا شوق ہوا تو لاہور کے ماڈل ٹائون کے ایک چھوٹے سے گھر پر اس سلسلے
میں مشاورت ہوتی تھی ۔ اس مشاورت میں میزبان کے علاوہ جنرل حمید گل، محمد علی درانی اور ڈاکٹر محمد فاروق خان شریک ہوتے تھے ۔ میں ڈاکٹر فاروق خان کے ساتھ لاہور جاکر اپنے ہیرو کو دیکھتا اور سنتا رہتاتھا ۔ ان نشستوں میں ان کی کارکردگی دیکھ کر میرا دل ٹوٹ گیا اور میں سمجھ گیا کہ یہ صاحب وہ نہیں جو نظر آتے ہیں ۔ ان نشستوں کے میزبان (کسی وقت ان کانام بھی سامنے لے آئوں گا) اور محمد علی درانی بھی اسی وقت نیازی صاحب کے بارے میں اس نتیجے تک پہنچے جس تک میں پہنچا تھا۔

میں نے محسوس کیا کہ عمران احمد خان نیازی صاحب کادل نہیں بلکہ وہ سراپا عقل اور خواہشات ہیں ۔ صاحب ِ دل ہمیشہ دوسروں کا دل رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس شخص کو اللہ نے یہ صلاحیت ہی نہیں دی ۔ وہ صرف اور صرف اپنی ذات کے حصار میں بند ہے جو دوسروں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بدرجہ اتم جانتا ہے ۔جو لوگ غور سے دیکھ رہے ہوں انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے اوراپنی شادی کے دن ان کے چہرے کے تاثرات ایک جیسے ہوتے ہیں۔

دوسری چیز اس وقت یہ محسوس کی کہ ہمارے دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح ان کے بھی دو چہرے ہیں تاہم میدان صحافت میں آنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے دو نہیں بلکہ تین چہرے ہیں اور تین مختلف حلقوں میں وہ الگ الگ چہرے اور شخصیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں ۔ اتنے ذہین ہیں کہ ایک حلقے کو دوسرے چہرے کی خبر نہیں ہونے دیتے اور دوسرے کو تیسرے چہرے کی ۔ تیسری چیز یہ محسوس کی کہ وہ انتہائی سفاک انسان ہیں ۔ رشتوں پر زیادہ یقین نہیں رکھتے اور اپنے ٹارگٹ کے لئے کسی بھی انسان اور کسی بھی رشتے کی قربانی دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ تازہ ترین مثال جہانگیر ترین کی ہے کہ کس طرح وقت آنے پر انہو ں نے ان کو قربان کیا ، کس طرح انہوں نے ان کا عدالتی فیصلہ آنے سے دو ہفتے قبل اپنے لئے متبادل جہاز کے انتظامات شروع کئے اور اب کس طرح ان کے سب سے بڑے حریف شاہ محمودقریشی اور اسد عمر کو آگے کرکے نواز رہے ہیں ۔ چوتھی چیز میں نے یہ محسوس کی کہ اقتدار کی خاطر وہ کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہیں ۔ اس کی خاطر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ جنرل احسان الحق جیسے لوگ گواہ ہیں کہ ان سے اقتدار کی بھیک مانگتے رہے ۔ اسی کی خاطر وہ ریاستی اداروں کا مہرہ بننے کو بھی تیار ہیں اور اسی کی خاطر وہ ہندوستان جاکر ملکی اداروں کی ایسی تیسی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ طاقت کے مالک ہوں تو وہ جنرل کیانی کے سب سے بڑے تابعدا ر ہوتے ہیں لیکن ریٹائرڈ ہوجائے تو ان پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں ۔ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھے ہوں تو اپنے محسنوں کے خلاف بھی افتخار محمد چوہدری کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن ریٹائرڈ ہوجائیں تو انہیں تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔

میری رائے کی تشکیل میں دو اور عوامل بھی ہیں لیکن وہ نجی زندگی سے متعلق ہیں ۔ ان کی نجی زندگی سے متعلق میڈیا میں کبھی بات کی ہے اور نہ کروں گاکیونکہ میں اسے مناسب سمجھتا ہوں اور نہ میری اپنی اقدار اس کی اجازت دیتی ہیں ۔میں انسان ہوں اورمیری رائے غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن تادم تحریر میں شرح صدر کے ساتھ نیازی صاحب کے بار ے میں وہی رائے رکھتا ہوں جو اوپر بیان کی ہے ۔

میں اسی تناظر میں ان کو اور ان کی جماعت کو نسبتاً زیادہ تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہوں ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ میرے نزدیک ایک صحافی کا بنیادی کام یہی ہے کہ وہ کسی فرد ، گروہ ،جماعت یا ریاست کی حقیقت قوم کے سامنے لائے اور فیصلہ کرنا اس پر چھوڑ دے ۔ اب میرے نزدیک آصف علی زرداری جیسے ہیں، پاکستانی لوگ بھی ان کو ویسا سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح میاں نوازشریف حقیقتاً جو ہیں لوگ بھی ان کو ویسا ہی سمجھتے ہیں ۔ آصف علی زرداری کا کوئی ووٹر یا سپورٹرہر گز ان کو فرشتہ نہیں سمجھتا ۔ دیگر عوامل کی وجہ سے لوگ ان سے یا ان کی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کا کوئی ووٹر میاں نوازشریف کے بارے میں اس غلط فہمی کا شکار نہیں کہ ان کا لیڈر پارسا یا نیلسن مینڈیلا ہے۔ ان کے ان سے جڑے رہنے کے عوامل کچھ اور ہیں ۔ تاہم عمران احمد خان نیازی کا معاملہ مختلف ہے ۔ وہ حقیقتاًجیسے ہیں، ان کو لوگ ویسا نہیں بلکہ الٹ سمجھتے ہیں ۔ چاہنے والے تو کیا ان کے اکثر مخالفین بھی ان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ میں اسی لئے ان کو زیادہ توجہ دے رہا تھا کہ لوگ ان کی حقیقت سے بھی اسی طرح واقف ہوجائیں جس طرح کہ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی حقیقت سے ہوگئے ہیں ۔ میری یہ کوشش بہت صبر آزما اور طویل رہی ۔ اس دوران ان کے چاہنے والے پوری قوت کے ساتھ میرے خلاف متحرک رہے ۔ خود نیازی صاحب کی ہدایت پر مسلسل میری کردارکشی کی مہمات چلائی گئیں ۔ سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب اس معاملے میں میری عظیم ماں تک کوگالیاں دی گئیں ۔ افسوس کہ یہ کام جہانگیر ترین کررہے تھے اور نہ شاہ محمود قریشی ۔پی ٹی آئی کی اس کلاس نے مجھے ہمیشہ عزت و احترام سے نوازابلکہ گالم گلوچ کا یہ کام وہ مخلص اور جذباتی نوجوان کررہے تھے جو نیازی صاحب کو مسیحا اور انقلاب کی علامت سمجھ رہے تھے ۔ میں نیازی صاحب کے ساتھ عملاً ان لوگوں کے حق کی جنگ لڑ رہا تھا جو مجھے گالیاں دے رہے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ان مخلص اور انقلابی نوجوانوں کو دھوکہ دے کر مافیاز کو قدموں میں بٹھایا جارہا ہے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن یا تو ان انقلابیوں کے جذبات کا خون ہوجائے گا یا پھر وہ بھی شہریار آفریدی ، علی محمد خان اور مراد سعید کی طرح رنگ میں رنگ کر پرویز خٹک اور علیم خان جیسوں کے کارندے بن کر اپنے جیسے مڈل کلاسیوں اور نوجوانوں کے خلاف سازشوں میں مگن ہوں گے ۔ لیکن کہاں صرف ایک مزدور کی دہائی اور کہاں طاقتور حلقوں کی نگرانی میں پی ٹی آئی کی پروپیگنڈا مشین ۔ چنانچہ عموماً میری صدائیں صدا بصحرا ثابت ہوتی رہیں ۔تاہم اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔میر ا کام اب نیازی صاحب خود کرنے لگے ہیں اگلے انتخابات کے لئے پاکستان سے چن چن کر کرپٹ اور مافیاز کے سرخیلوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر اور انقلابی نوجوانوں کو نظرانداز کرکے نیازی صاحب نے بڑی حد تک اپنی حقیقت خود آشکار کردی ۔

فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی خوشی کے ساتھ ساتھ اللہ نے مجھے رمضان کے مبارک مہینے میں یہ دوسری خوشی اور سرخروئی عطا کردی کہ ملک بھر سے تحریک انصاف کے انقلابی اور مخلص نوجوان رابطے کرکے مجھ سے معافیاں مانگ رہے ہیں ۔ان کی پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ صافی صاحب آپ ٹھیک کہتے تھے لیکن ہم سمجھے نہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہوں اور بے اختیار منہ سے نکلتا رہتا ہے کہ شکریہ نیازی صاحب ۔ آپ کی وجہ سے میری ماں کو گالیاں پڑیں بلکہ آپ ہی نے پڑوائیں اور آپ ہی کی وجہ سے وہ گالیاں دینے والے اب مجھ سے معافیاں مانگ رہے ہیں ۔ نیازی صاحب !میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے تاکہ یہ قوم پوری طرح آپ کی حقیقت جان سکے ۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے تاکہ آپ کی خاطر دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے باقی ماندہ لوگوں کو بھی اپنے کئے پر نادم ہوتا ہوا دیکھ سکوں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے