قاری اور قرآن

یہ ستائیس رمضان کی مبارک صبح تھی ۔ میری بڑی بیٹی عروہ نے اٹھتے ہی بتایا کہ آج اس کا قرآن کریم مکمل ہو جائے۔ میں خوشی ، حیرت اور مسرت سے اس ننھے وجود کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ یہ محض ایک خبر نہ تھی ۔ اس میں سورہ رحمن کی تفسیر چھپی تھی : اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

علی ، عائشہ اور عروہ تینوں تجوید کے ساتھ اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں ۔ میری کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ میرے بچے انگریزی انگریزوں کے لہجے میں بولیں ۔ بس اتنا ہے کہ اچھی بول لیں اور اپنا مافی الضمیر بیان کر سکیں ۔ اردو میں بھی پنجابی کے الفاظ ادا کرتے ہیں اور میں نے کبھی انہیں ٹوکا نہیں ۔ غالبا یہ انتظار حسین تھے، کہا کرتے تھے بچہ اردو میں پنجابی کے الفاظ بولے تو شکر کرنا چاہیے کہ اپنی تہذیب کے کچھ رنگ ابھی اس کے وجود میں زندہ ہیں ۔ قرآن کا معاملہ البتہ الگ ہے۔ بالکل الگ ۔ بالکل مختلف ۔ قرآن یوں پڑھا جانا چاہیے جیسے اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ قرآن پڑھا جا رہا ہو تو ماحول کو تھم جانا چاہیے۔ میں تو ایسا نہیں پڑھ سکتا لیکن خدا کا شکر ہے اب میرے بچے جب قرآن پڑھتے ہیں تو وجود اپنی گہرائیوں تک شانت ہو جاتا ہے۔

چند سال کی بات ہے۔ میں نے کمپیوٹر پر قاری عبد الباسط عبد الصمد کو تلاوت کرنے سنا ۔ یہ سورۃ الضحٰی تھی ۔ سارا وجود برفاب ہو گیا ۔ قاری عبد الباسط کا نام تو بہت سن رکھا تھا ، ان کی تلاوت مگر آج پہلی بار سن رہا تھا ۔ پہلی بار معلوم ہوا قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ نماز تراویح میں مقتدیوں سے زیادہ جلدی حافظ صاحب کو ہوتی ہے ۔ انہیں بس ختم قرآن کرنا ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ بھلے پورے رمضان کی نماز تراویح میں چند پاروں ہی کی تلاوت ہو سکے لیکن قرآن ایسے پڑھا جائے جیسے قاری عبد الباسط نے پڑھا ۔ لحن داؤدی کا نام سن رکھا تھا ۔ اس روز قاری عبد الباسط کی آواز میں سورۃ الضحی سنی تو سوچتا رہا لحن داؤدی کا عالم کیا ہو گا ۔

میں موسیقی کا بہت دلدادہ ہوں ۔ اب بھی سنتا ہوں۔ لیکن سچ کہوں تو قاری عبد الباسط سے سورۃ الضحی سننے کے بعد موسیقی میری ضرورت نہیں رہی ۔ سورۃ الضحی کی یہ تلاوت انٹر نیٹ پر موجود ہے ۔ خودسن لیجیے اور تجربہ کر لیجیے۔ادائیگی ، ترنم ، موسیقیت سماعتوں کو جس جس چیز کی طلب رہتی تھی وہ یہاں موجود تھی اور نہ صرف موجود تھی بلکہ اپنے کمال پر تھی۔ بہت ڈھونڈا کہ جیسے قاری عبد الباسط نے یہ سورۃ الضحی پڑھی ہے اسی انداز سے ان کی آواز میں پورا قرآن کہیں سے مل جائے ۔ چند سورۃ مبارکہ تو مل گئیں لیکن پورا قرآن نہ مل سکا۔ تشنگی بڑھتی گئی ۔ دوستوں نے کچھ اور قاری صاحبان کی تلاوت کی سی ڈیز بھیجیں لیکن جس طالب علم نے پہلا سبق ہی قاری عبد الباسط سے سنا ہو اب وہ کیا کرے؟ مجھے تو اسی انداز کی طلب تھی لیکن اب قاری عبدالباسط کوئی کہاں سے لاتا؟

قاری صاحب بچوں کو پڑھانے آتے ہیں اور میں نے بچوں کو بار ہا قاری عبد الباسط کی سورۃ الضحی سنا کر بتایا ہے کہ قرآن ایسے پڑھا جاتا ہے۔ اور میں جانتا ہوں آپ اس انداز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے۔ کبھی بھی نہیں پڑھ سکتے۔ٓ اپ کا کمال یہ ہو گا کہ آپ بس اتنا کیجیے اس انداز سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرتے جائیے جس انداز سے قاری عبد الباسط قرآن پڑھتے ہیں ۔ اب بچے گھر میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ ان کے الفاظ کی ادائیگی میرے لیے سورہ رحمن کی تفسیر ہے: اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

اگلا مرحلہ اب فہم قرآن کا ہے۔ خواہش ہے کہ بچوں کو قرآن کے ایک ایک لفظ کا معنی معلوم ہو ۔ وہ مختلف مسائل کی تفہیم کے لیے بلاوجہ ادھر ادھر نہ پھرتے رہیں ۔ انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہو کہ قرآن میں کیا لکھا ہے اور کہاں لکھا ہے۔اس بنیادی آگہی کے بعد کسی بات کو سمجھنے کے لیے کسی اہل علم کے پاس جائیں تو وہ الگ بات ہے۔ لیکن انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قرآن غلاف میں لپیٹ کر گھر میں سب سے اونچی جگہ پر رکھ دینی والی کتاب نہیں ۔ یہ ایک ریڈی ریفرنس کے طور پر ہر وقت سٹڈی ٹیبل پر موجود ہونا چاہیے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے ہاں ہوتا ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے پہلے دن جب میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے ہان گیا اور یہ قریبا دس سال پہلے کی بات ہے۔ قرآن کریم کا ایک نسخہ ڈاکٹر صاحب کی میز پر رکھا تھا ۔ اول مجھے حیرت ہوئی کہ بھلا قرآن کو ایسے رکھا جاتا ہے؟ اس کو تو کہیں سب سے اونچی جگہ پر ہونا چاہیے۔ پھر جب دوران گفتگو دو تین مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے قرآن کھول کر دیکھا تو بات کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی ۔ جاتے وقت انہوں نے رنگوں سے فہم قرآن کے لیے ترتیب دیا گیا ایک نسخہ عنایت فرمایا۔اس نسخے کا کمال یہ تھا کہ تلاوت کرتے جائیے اور آپ کو معلوم ہوتا جائے گا کس لفظ کا مطلب کیا ہے۔اور جب قرآن کے معانی ساتھ ساتھ سمجھ آ رہے ہوں تو اسے پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔

ہم قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا اس میں لکھا کیا ہے۔ آقا نے گویا ایک حکم نامہ بھیجا ہے اور غلاموں نے اسے غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا ، کبھی اسے اٹھا کر چوم لیا ، کبھی اس پر قسم کھا لی ، کبھی اس کو پڑھ لیا لیکن ساری عمر یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ حکم نامے میں آخر لکھا کیا ہوا ہے۔ حالانکہ اس کا کمال یہ ہے کہ جتنی بار پڑھ لیجیے ہر بار فہم و شعور کے نئے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی الجھن میں ہیں اور وہ حل ہونے میں نہیں آ رہی ۔ آپ نے قرآن اٹھا لیا اور تیسری یا چوتھی آیت نے ہی آپ کا مسئلہ حل کر دیا ۔ ایسے لگتا ہے قرآن آپ سے مخاطب ہے۔ خالق کائنات آپ سے مخاطب ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے