تین آدمی تین کہانیاں

مشہور تو ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کی ’’تین عورتیں تین کہانیاں‘‘ ہیں لیکن آج کل تین مردوں نے خاصا تماشا لگا رکھا ہے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ خاصا ’’وخت‘‘ ڈال رکھا ہے، جن میں فی الحال سرفہرست عمران خان فیم زلفی بخاری ہے جس نے کچھ لوگوں کے بخار اتار دیئے کچھ کو چڑھا دیئے۔

عمران خان کےاکثر دوستوں سے میری جان پہچان، علیک سلیک ہےبلکہ کچھ کے ساتھ تو اچھی خاصی دوستی بھی مثلاً عمر فاروق گولڈی جو عمر میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دنیاداری میں بہت ہی کمی کرچکا البتہ درویشی بڑھتی جارہی ہے۔ زلفی بخاری کو میں نہیں جانتا لیکن یہ میڈیا کیلئے یقیناً بہت بھاری ثابت ہوا۔ وجہ وہ ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘‘ جس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

میڈیا کبھی کبھی اُتاولا ہو جاتا ہے۔ بہت ہی گرم گرم کھانے سے کبھی زبان جل جاتی ہے کبھی تالو سلگ اٹھتا ہے اور کیفیت کچھ ایسی بن جاتی ہے۔

کیا کروں میں یقیں نہیں آتاتم تو سچے ہو بات جھوٹی ہےلیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صاف ستھرے نیک نام لوگوں پر ’’لفافوں‘‘ کے الزام لگا دیئے جائیں۔ بھول چوک توکسی سے بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کا مطلب نیت میں کھوٹ نہیں سو سوشل میڈیا کے دوستوں کو تھوڑی سی احتیاط کرنی چاہئے اور فیصلے صادر فرماتے وقت متعلقہ فریقین کا ماضی ضرور سامنے رکھنا اور شک کا فائدہ دینا چاہئے۔

سچ یہ کہ غصہ اس خبر یا افواہ پر مجھے بھی بہت چڑھا تھا لیکن یہ ’’خبر‘‘ نہ میرے حلق سے اتری نہ ہضم ہوئی کیونکہ جس عمران خان کو میں عشروں سے جانتا ہوں وہ اپنے سگے بیٹے کے لئے بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ جس نے جوانی میں اپنے ماجد خان جیسے لیجنڈ کرکٹر بڑے بھائی کو فٹ نہ ہونے پر کٹ سمیت فیلڈ سے واپس کر کے عمر بھر کیلئے اپنے اتنے قریبی تعلق کو ’’اصول‘‘ پر قربان کردیا ہو، وہ اس عمر میں ایسی جھک مارے گا؟

یہی وہ سوال تھا جس نے مجھے روکے رکھا کہ خود عمران سے پوچھوں گا کہ حقیقت کیا ہے؟ پوچھنے سے پہلے ہی حقائق سامنے آگئے، زلفی بخاری بھی نہ صرف تین دن میں واپس اور سامنے آگیا بلکہ ہائی کورٹ بھی پہنچ گیا۔ نہ ’’ای سی ایل‘‘ نہ عمران کی کسی کو فون کال لیکن سوچتا ہوں اگر میں اصل عمران سے واقف نہ ہوتا اور عجلت پسند ی کا شکار ہو جاتا تو کیا میرے ابتک کئے کرائے پر بھی یونہی ’’لفافہ‘‘ پھیر دیا جاتا؟

ہمیں ایک دوسرے کا ماضی ذہن میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ مارجن ضرور دینا چاہئے۔ یہاں یہ بھی دھیان میں رہے کہ میں نے کہیں عمران کے ساتھ دوستی کی بات نہیں کی کیونکہ میرا ایمان ہے کہ جو کوئی عمران کے ساتھ دوستی کا دعویٰ کرے وہ خود بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف بنا رہا ہے کیونکہ عمران دوستی کی روایتی Defination پر پورا نہیں اترتا۔ کچھ معاملات میں بے لچک آدمی ہے۔

اندازے یا انفارمیشن کی مار کھا جائے تو اور بات ویل ڈن زلفی بخاری۔اب چلتے ہیں دوسرے آدمی یعنی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی طرف جو کبھی ’’چیف تیرے جانثار بیشمار بیشمار‘‘ ہوتے تھے لیکن پھر جو کچھ ہوا اور وہ کس طرح، کس بری طرح ’’ون شو ہیرو‘‘ ثابت ہوئے، ہم سب کے سامنے ہے۔ پھر ’’سونے پہ سہاگہ‘‘ یا ’’نیم پر کریلا‘‘ یوں چڑھا کہ چوہدری صاحب کو سیاست ہوگئی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے سانپوں کو سمجھے بوجھے جانے پہچانے بغیر کوئی سپیرا بننے کی ٹھان لے۔ اب کوئی انہیں طنزیہ ’’ارسلان کے ابو‘‘ لکھتا ہے، کوئی ملک ریاض کیس یاد دلاتا ہے، کوئی ارسلان کی جہاں گردی کی گرد اڑاتا ہے۔

رہی سہی کسر فواد چوہدری یہ کہہ کر پوری کئے دیتا ہے کہ ’’سابق چیف جسٹس کو عمران خان کے خلاف مہرے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘‘ یعنی عزت مآب کو ریحام خان کے ساتھ بریکٹ کیا جارہا ہے تو جواباً کوئی فواد چوہدری کو فساد چوہدری بھی کہہ دے تو بات نہیں بنے گی۔

چوہدری صاحب اب بھی سیاست کا یہ بھاری، بھدا، گندا پتھر چوم کر چھوڑ دیں تو بہتر ہوگا کہ ….’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘ یا یہ منظر ….وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت پاکستانی سیاست اپوزیشن کی ہو یااقتدار کی…. عزت دار کا کام نہیں رہ گیا۔ یقین نہ آئے تو اس کالم کے تیسرے آدمی، تیسرے کردار چوہدری نثار کی سن لیں جو کہتے ہیں ’’نوازشریف زیادہ سینئر یا اہل نہیں تھے کہ پارٹی سربراہ بن سکیں۔

15تا 20اکابرین انہیں آگے لائے اور آج ان میں سے ایک بھی ان کے ساتھ نہیں۔ ان کا مجھ پر نہیں میرا ان پر قرض ہے۔ باپ بیٹی کا کردار سامنے لانا چاہتا ہوں‘‘۔چوہدری نثار نےاور بہت کچھ کہا لیکن میں صرف چند باتوں پر اکتفا کروں گا جن میں سے پہلی یہ کہ نواز اگر نہ سینئر تھا نہ اہل تو جن اکابرین نے اسے قیادت کیلئے منتخب فرمایا، کیا آج انہیں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو کم از کم ایک ایک چپت نہیں مارنی چاہئے؟ یاد رہے میں تھپڑ نہیں، چپت کی فرمائش کررہا ہوں اور اگر یہ ممکن نہیں تو اپنے اس گناہ پر باجماعت قوم سے معافی ہی مانگ لیں۔

میرا خیال ہے ’’سیانوں‘‘ نے سوچا ہوگا کہ اوسط سے بھی کم درجہ کا آدمی ہے، اسے آگے لگا دو لیکن وہ احمق نہیں جانتے تھے کہ ’’دست کار‘‘ اندر سے پورا ’’فنکار‘‘ ہے جس نے آہستہ آہستہ سب کو ’’ٹشو پیپر‘‘ اور ’’خلال‘‘ کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا تو یہی ’’مردم ناشناسی‘‘ کی مناسب سزا تھی۔ ’’مکافات‘‘ کی بات دوسری کہ اب نوازشریف کی فنکاری کا آخری شکارخود نوازشریف ہے۔ چوہدری نثار نے باپ بیٹی کا کردار سامنے لانے کی بات کی ہے تو میں اپنے آدھے ہم نام سے ففٹی پرسنٹ ڈسکائونٹ چاہتاہوں اور وہ یہ کہ ….باپ کوچھوڑیں نہیں…. بیٹی کو چھیڑیں نہیں کہ یہ آپ کو زیب نہیں دے گا!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے