میرے مرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!

میرے ایک دوست کے دادا گزشتہ دنوں بعمر نوے سال فوت ہوگئے ۔میں تعزیت کے لئے ان کی طرف گیا اور بہت مشکل سے اپنی ہنسی پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا’’بہت افسوس ہوا ابھی ان کے جانے کی عمر تو نہیں تھی‘‘ اس پر دوست نے میرا شکریہ ادا کیا او ربولا ’’جانا تو ایک دن سب نے ہے میرے دادا بھی گئے مگر اس کا ایک بہت بڑا فائدہ مجھے ہوا‘‘ میں نے کہا ’’ہاں مجھے علم ہے میں نے سنا ہے کہ ان کا بینک اکائونٹ جوائنٹ تھا صرف تم اور وہ ہی اسے آپریٹ کر سکتے تھے مجھے پتا چلا ہے کہ وہ کروڑوں روپے چھوڑ کر فوت ہوئے ہیں ۔

اب یہ سارا پیسہ تمہارا ہے بولا اب مجھے روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی میں نے یہ سب پیسے نکلوا کر فلاحی اداروں میں تقسیم کر دیئے ہیں میں نے کہا پیسہ کمانا تمہارے لئے کونسا مشکل کام ہے ابھی چھ ہفتے قبل تم نے ایک بیوہ کے نوے کروڑ کے پلاٹ پر قبضہ کیا ہے اس سے پہلے بھی تم لوگوں کی اربوں روپوں کی جائیداد ہتھیاچکے ہو اس بے پناہ دولت اور حکومت میں اثرورسوخ کے نتیجے میں تم ہر الیکشن میں کامیاب بھی ہو جاتے ہو۔ دادا جان کے دو چار کروڑ روپے تمہارے لئے واقعی بے معنی ہیں اچھا کیا جو یہ رقم فلاحی اداروں میں تقسیم کر دی اس سے تمہارے دوسرے عیوب پر پردہ پڑے گا ‘‘۔

میری یہ گفتگو سن کر میرے اس دوست کی آنکھوں میں آنسو آ گئے بولا ’’تم غلط سمجھ رہے ہو میں ان سب گناہوں سے توبہ کر چکا ہوں۔میں جب اپنے دادا کو قبر میں اتار رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ میں آج تک ہوس دنیا میں جو کچھ بھی کرتا رہا ہوں وہ تو سب کا سب یہیں رہ جانا ہے۔جس طرح میرے دادا عالیشان محلات چھوڑ کر اس چھ سات فٹ لمبی اور دو تین فٹ چوڑی قبر میں آ لیٹے اور ہم سب ان کو اس گڑھے میں دفنانے کے لئے ان پر مٹی ڈال رہے تھے ۔ ایک دن میں نے بھی مرنا ہے اور مجھے بھی اس طرح گڑھے میں دفن کر دیا جائے گا تو میں کیوں اپنی قبر میں دوزخ کی آگ بھڑکائوں میری مانو تم بھی ملاوٹ، چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی سے باز آ جائو کیونکہ ایک دن موت تمہیں بھی آنی ہے ‘‘۔

پیشتر اس کے کہ میرا یہ سابق ’’دونمبر ‘‘دوست اپنی رقت انگیز تقریر کو طول دیتا میں نے اسے درمیان ہی میں ٹوک دیا اور کہا ’’یہ لیکچر تم ان لوگوں کو دینا جنہوں نے مرنا ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میں کبھی نہیں مروں گا ‘‘ دوست جو اپنے دادا کی موت سے بہت ڈر گیا تھا خوفزدہ لہجے میں بولا ’’توبہ کرو توبہ کرو موت سے کسی کو رستگارنہیں ہے ‘‘میں نے جواب دیا تم جو مرضی کہتے رہو میں تمہیں زندہ رہ کر دکھائوں گا۔

میں نے ابھی تک اربوں روپوں کی جائیداد بنالی ہے اب مجھے معاشرے میں عزت بھی درکار ہے تم دیکھو گے اب میں اس ملک کا سربراہ بھی بنوں گا خواہ اس کے لئے اپنی دولت اور اپنے ملکی اور غیر ملکی اثرورسوخ کے ذریعے ملک کی سلامتی ہی کو دائو پر کیوں نہ لگانا پڑے جائے۔دوست نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ملک کا سربراہ بننے کے لئے بہت سی آئینی شرائط پور ی کرنا پڑتی ہیں جبکہ تم اس سلسلے کی ایک بھی شرط پوری نہیں کرتے۔میں نے جواب دیا یہ کروڑ پتی قانونی ماہرین آخر کس روز کام آئیں گے۔میں نے کئی چور اچکوں اور قاتلوں کو وزیر بنایا ہے وہ مجھے ملک کا سربراہ نہیں بنا سکتے ۔

یہ سن کر دوست کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے مجھے محسوس ہوا وہ مجھے پاگل سمجھ رہا ہے میرا اندازہ صحیح نکلا اس نے کہا مجھے لگتا ہے تمہارے دماغ پر کسی گہرے صدمے کا اثر ہے ورنہ تم یہ الٹی سیدھی باتیں نہ کرتے چلو ایک منٹ کے لئے فرض کرتے ہیں کہ تم ساری آئینی شرائط کو پائوں تلے روندتے ہوئے ملک کے سربراہ بن جاتے ہو اس کے بعد کیا کرو گے ۔اس کا یہ احمقانہ سوال سن کر میری ہنسی نکل گئی میں نے جواب دیا ’’وہی کروں گا جو صاحبان اقتدار کرتے ہیں یعنی من مانی کروں گا۔اہم ترین اور نازک ترین فیصلے میری مرضی سے ہوں گے مشاورت کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دوں گا جس کے ارکان میرے ہم خیال اور میرے ہم مشرب لوگ ہوں گے۔‘‘

افسوس تم قبضہ گروپ کو خیر باد کہہ گئے ہو ورنہ اس کمیٹی کے تم بھی رکن ہوتے اور ہاں یاد رکھو میں پاکستان کا آخری سربراہ ہوں گا میرے علاوہ کوئی اس منصب پر فائز نہیں ہو گا کیونکہ میں نے مرنا ہی نہیں ہے ۔مجھے یوں لگا جیسے میرے اس جملے سے میرے دوست کو کرنٹ سا لگا ہے بولا ’’یہ بات تم پہلے بھی کہہ چکے ہو کہ تم نے نہیں مرنا تم سے پہلے فرعون، نمرود، شداداور دوسرے بہت سے لوگ مر چکے ہیں ان کے جسموں کو کیڑے مکوڑے کھا چکے ہیں اور ان کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہیں ان سب کو تمہاری طرح یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مریں گے۔

مگر ایک دن موت نے انہیں آلیا تم بھی اس خدائی قانون سے بچ نہیں سکو گے۔ میں نے جواب دیا ’’وہ سب لوگ اپنی کسی غلطی کی وجہ سے مرے ہوں گے ان کی سیکورٹی میں یقیناً کوئی کمی رہ گئی ہو گی جس سے فائدہ اٹھا کر عزرائیل ان تک پہنچ گیا ورنہ موت کی کیا مجال تھی کہ ان تک پہنچتی میں عزرائیل کا رستہ روکنے کے لئے دوسرے فرشتوں کی مدد لوں گا اور عزرائیل کو بے بس بنا کر رکھ دوں گا ۔کاغذقلم پکڑو اور یہ نوٹ کر لو کہ میں نے کبھی نہیں مرنا۔‘‘

میرے دوست پر میری اس مدلل گفتگو کا عجیب وغریب اثر ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بک شیلف میں سے قرآن مجید نکال کر آیات کی تلاوت میں مشغول ہو گیا اور پھر اس پر رقت طاری ہو گئی وہ تلاوت کے دوران رو رہا تھا روتے روتے اس کی ہچکی بند ہو گئی اور پھر اس کی چھ ہفتوں کی داڑھی آنسوئوں سے بھیگ گئی مجھے اس بیوقوف شخص پر ترس آنے لگا تھا چنانچہ یقین تھا کہ میں ایک دن واقعی مر جائوں گا حالانکہ میں نے کبھی نہیں مرنا !میں اٹھ کر کمرے سے باہر آ گیا اس بزدل شخص کو شاید یقین تھا کہ میں ایک دن واقعی مر جائوں گا حالانکہ میں نے کبھی نہیں مرنا۔!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے