شجاعت بخاری:ایک پُل جوگرادیاگیا

اگست 2015 کی بات ہے اسلام آباد میں انٹرا کشمیر جرنلسٹس ورکشاپ ہو رہی تھی جس میں خونی لکیر کے دونوں اطراف کے صحافی شامل تھے۔ اسلام آباد میں میرے کیرئیر کے ابتدائی دن تھے ، زیادہ تجربہ اور جان پہچان نہ ہونے کے باعث اس ورکشاپ میں شامل نہ تھا تاہم اس ورکشاپ کے آرگنائزر ارشاد محمود کو بارہا فون کر کے اپ ڈیٹس لیتا رہا اور اس پار سے آئے صحافیوں کے وفد سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کرتا رہا۔

ایک شام مجھے کہا گیا رات نو بجے کے بعد ہوٹل (جہاں وفد رہائش پذیر تھا)آ جائیں ۔ہم تین دوست وہاں پہنچے اور رات دس بجے ہماری ملاقات ممکن ہوئی ۔ شجاعت بخاری ، افتخار گیلانی اور ریاض ملک کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے سے زائد دورانیے پر محیط گپ شپ رہی۔شجاعت بخاری کی دن بھر کی مصروفیات اور تھکن اور دوسرے دن کے مصروف شیڈول کے باوجود وہ ہمارے ساتھ اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک ہم ان سے بات کرنے کے خواہش مند رہے اور پھر دوسرے دن ان سے ملاقات کا وعدہ لے کر محفل برخاست کی۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ کس قدر تحمل مزاج اور طرفین کے کشمیریوں سے بات چیت کیلئے وقت صرف کرنے کے لیے آمادہ رہتے تھے۔ اس دورے کے دوران ان سے دو تین مرتبہ ملاقات ہوئی اور میں نے ان کا ایک انٹرویو بھی کیا جس سے ان کے خیالات کو تفصیل سے جاننے کا موقع ملا۔ پھر جب بھی وہ اسلام آباد آتے تو میری کوشش ہوتی کہ ان سے ملاقات ہو۔اُس وقت بھی اس وفد کی آمد پر کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے تاہم میں بہت خوش تھا کہ میری ملاقات کشمیر کے بھارتی زیرانتظام حصے سے آئے صحافیوں سے ہوئی ہے۔

دانش ارشاد اور شجاعت بخاری کی ایک یادگار ملاقات

جب سے میں صحافت سے منسلک ہوا ہوں، ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں سے شائع ہونے والے اخبارات کا مستقل مطالعہ میرا معمول ہے۔ اُس پار سے آئے ہوئے صحافیوں سے ملاقات کے بعد مجھے اخبارات سے بڑھ کر ریاست جموں کشمیر کے تمام حصوں میں شعبہ صحافت سے منسلک افراد سے بھی رابطے کی خواہش ہوئی جو مذکورہ اصحاب کی وجہ سے ممکن ہو سکی۔

2015 کی اس ملاقات کے بعد سوشل میڈیا کی وساطت سے گاہے بگاہے رابطہ ہوتا رہتا تھا اور جب شجاعت بخاری اسلام آباد آتے تو ملاقات ہو جاتی۔ان سے آخری ملاقات رواں برس آٹھ مئی کو کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کی سلور جوبلی تقریب میں ہوئی ۔ جس میں پانچ سات منٹ کی بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ’’دوبئی کانفرنس کے بعد آپ نے سید صلاح الدین کا جو انٹرویو کیا اس کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو ہمارے لیے (بھارتی مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کیلئے) خطرناک ہے‘‘۔(دبئی کانفرنس میں آر پار کے منتخب سیاست کاروں کے علاوہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر چیپڑ کے ایک کنوئینر بھی شامل تھے۔ اس کانفرنس کے بارے میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ اسے ہندوستان نے سپانسر کیا ہے)۔

مذکورہ تقریب میں بات کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانی میڈیا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور بالخصوص وادی کے حالات کو پاکستانی میڈیا میں جس قدر جگہ ملنی چاہیے وہ نہیں مل رہی ۔ انہوں نے سات مئی 2018کو کشمیر میں ایک پی ایچ ڈی سکالر کی شہادت کی خبر کی مثال دی کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں پندرہ منٹ کے بلیٹن میں آخری خبر کے طور پر اسے جگہ دی گئی اور اس کے بعد وہاں پیدا ہونے والے حالات پر بات نہیں کی گئی، شجاعت بخاری نے کہا کہ آج تک پاکستانی میڈیا پر کشمیر کے حوالے سے کوئی تحقیقاتی اسٹوری دیکھنے کو نہیں ملی۔ جس پر حامد میر نے اپنے خطاب کے دوران جوابی انداز میں کہا کہ پاکستانی میڈیا قبائلی علاقوں میں ہونے والے واقعات کو آزادانہ رپورٹ نہیں کر سکتا اور شجاعت بخاری ہم سے کشمیر کے حالات پر تحقیقی رپورٹنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے بعد حامد میر نے خاصی تلخ باتیں کیں اور شجاعت بخاری کی ذات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دو تین سال قبل جب وہ اسلام آباد آئے تھے تو جیو نیوز نے ان کو ایک پروگرام میں جگہ دی اور جو باتیں شجاعت بخاری نے کیں وہ کشمیر کے زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھیں، حامد میر نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ صحافی سری نگر سے اسلام آباد اور مظفرآباد تک آ جاتے ہیں ہمیں تو دہلی سے آگے کبھی جانے ہی نہیں دیا گیا۔ اس پر شجاعت بخاری نے جواب دینے کی کوشش کی تاہم اسٹیج پر موجود سینیٹر شیری رحمان نے ان کو روکتے ہوئے کہا کہ حامد میر کو وہ جواب دیں گی اور حامد میر اپنے خطاب کے فوراً بعد شیری رحمان کو سنے بغیر ہال سے باہر نکل گئے تھے۔ یہ تو وہ یادیں ہیں جو میرے ذہن میں محفوظ رہ گئیں ۔

ان تین سالوں میں شجاعت بخاری کو قریب سے دیکھنے کے بعد احساس ہوا تھا کہ وہ کشمیر کی سب سے معتبر آواز تھے جو نہ صرف پاک و ہند میں سنائی دیتی تھی بلکہ پوری دنیا میں کشمیر کی آواز کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ حالیہ دنوں میں اس کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ ’’کشمیر میں بھارتی قابض فورسز کی جانب سے شہری کو گاڑی کے نیچے کچلنے کی تصویر انہوں نے ٹویٹ کی تو ہندوستان کے کونے کونے سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پتھراؤ کرنے والوں کا حمایتی کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی ان کی اس ٹویٹ کی گونج دنیا بھر میں سنائی دی اور کئی بین الاقوامی صحافیوں نے اسے ری ٹویٹ کیا تھا‘‘۔ میری نظر میں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے خود کو کبھی وادی کشمیر تک محدود نہ کیا وہ مجھ سے ملتے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں پونچھ سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت سے مل رہا ہوں ۔ اسی طرح ریاست کے دیگر علاقوں کے افراد سے بھی ملتے تھے۔

شجاعت بخاری کے کام کواحاطہ الفاظ میں لانا شاید مشکل ہے تاہم کشمیر کے حوالے سے ان کے کام پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کے ریاض مسروراپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ’’شجاعت بخاری کشمیر کی کہانی کو ہر زاویے سے بیان کرنے میں ماہر تھے‘‘۔ اس کے ساتھ ان کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی کی رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ ’’ایک صحافی کے طور پر شجاعت بخاری کی ساکھ کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ انھیں تقسیم کے دونوں جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے ایک درمیانی راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی تھی‘‘

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’جس طرح شجاعت کے بارے میں ان کی زندگی میں لوگوں کی آ راء منقسم تھیں اسی طرح ان کی ہلاکت کے بعد بھی لوگوں کی الگ الگ آراء ہیں۔کشمیر میں علیحدگی پسند انھیں انڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ سمجھتے تھے اور ہندوتوا نواز تنظیمیں انھیں شدت پسند تنظیموں اور جہادیوں کا ترجمان مانتی تھیں۔‘‘

شجاعت بخاری صرف صحافی نہیں بلکہ وہ عظیم سماجی کارکن بھی تھے جو خونی لیکر(لائن آف کنٹرول) کے آر پار بسنے والے مختلف شعبوں سے متعلق افرادکو ایک میز پر بٹھا نے کیلئے پُل کا کردار ادا کر رہے تھے ۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ 14 جون 2018کی شام (29 رمضان)اس پُل کو ہمیشہ کیلئے توڑ دیا گیا ۔

شجاعت چلے گئے لیکن کوئی بھی گروہ اس قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان کے قاتل ، قتل کے بعد بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔ یہ بھی واضح ہو چکا کہ جس نے بھی ریاست کے منقسم خطوں میں روابط بڑھانے یا کشمیر میں امن کے قیام کی کوشش یا بات کی وہ نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنا ، وہ شجاعت بخاری ہوں یا عارف شاہد یا پھر عبدالغنی لون۔ایسی اموات پر تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں جن کی تحقیق کبھی مکمل نہیں ہو پاتی۔ اس نوع کے ہدفی قتل کا فائدہ ان قوتوں کو ہوتا ہے جن کو کشمیر کے دونوں اطراف کے کشمیریوں کے آپس میں ملنے سے تکلیف ہوتی ہے۔

شجاعت بخاری جو کام کر رہے تھے اب اس کام کو آگے بڑھانے کا بیڑہ کون اٹھائے گا یہ اہم سوال ہے ۔کیا ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پورا ہو سکے گا؟ کیاکوئی آر پار کے کشمیریوں کو ملانے کا بیڑہ اٹھا کر خود کیلئے اندھی گولی تجویز کرنے کی جرأت کر سکے گا؟ کیا اب کوئی کشمیر میں امن کی بات کرسکے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے