درون خانہ صداقتیں اور آف شور امانتیں

ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر دریا ایسے شفاف ہیں کہ گہرے پانیوں کی تہہ میں پڑے پتھر کا رنگ تک صاف نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں دریا ہو یا ندی نالے، گدلے پانیوں سے ہمارا زیادہ واسطہ رہا ہے۔ بات یہ کہ ہم اصول اور زمینی حقیقت میں تعلق نہیں سمجھتے۔ ہم نے ریل گاڑی سے جے ایف 17 تھنڈر اور ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر تک کا سفر سائنسی فکر اور ٹیکنالوجی کا رشتہ سمجھے بغیر طے کیا ہے۔

ہم نے قومی آزادی سے پارلیمانی جمہوریت تک کا سفر سیاسی فکر اور اداروں میں تعلق سمجھے بغیر طے کیا ہے۔ ہمیں ایک ہی مصرعے میں قوم، ملک اور سلطنت کے رنگارنگ تصورات سمو دینے سے شغف ہے۔ 1892 میں انڈین کونسل ایکٹ کے تحت مقامی انتخابات ہوئے تو ہمارے ایک بزرگ نے لکھا، ’ہمارے شہر سے اٹھارہ شرفا انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ غضب خدا کا، کنجڑے، بقال اور بنیے منتخب ہو گئے، ایک بھی خاندانی شخص مجلس تک نہیں پہنچا۔‘

سوچ اور حقیقت کے اس تاریخی بحران ہی کا تسلسل ہے کہ عام انتخابات میں چار ہفتے باقی ہیں لیکن کسی اہم جماعت نے منشور جاری کرنے کی زحمت نہیں کی۔ زیادہ وقت تو اس قیاس آرائی میں گزر گیا کہ انتخابات منعقد ہوں گے یا نہیں۔ ان وسوسوں کے ٹھوس تاریخی اسباب ہیں۔

فروری 1959 میں پہلے عام انتخابات ہونا تھے، اکتوبر 58ء ہو گیا۔ اکتوبر 79ء میں عام انتخابات سے چند روز پہلےجنرل ضیا کو بتایا گیا کہ حسب منشا نتائج کی توقع نہیں۔ قبلہ نے انتخاب غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو کالعدم قرار دے کر اخبارات پر پری سنسر شپ عائد کر دی۔ 1988 کے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہو رہے تھے۔ لودھراں کی بستی لال کمال بیچ میں حائل نہ ہوتی تو مرحوم حمید گل اور اسلم بیگ کو آئی جے آئی بنانے کی زحمت نہ اٹھانا پڑتی۔ 2008 کے انتخابات میں ایک ہفتہ باقی تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں، سارا منظر ہی بدل گیا۔

زیادہ پرانی بات نہیں، مئی 2013ء کا منظر ذہن میں لائیے۔ ایک طرف طالبان کا ٹڈی دل بڑھا آتا تھا دوسری طرف کینیڈا کے مولوی صاحب لطیفہ غیبی کی صورت نمودار ہوئے۔ برسر اقتدار جماعت انتخابات سے بہت پہلے شکست خوردہ قرار پائی۔

متعدد اہم سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے ذریعے مفلوج کر دیا گیا۔ آپ کو یاد ہے تب پاکستان کی ہر دوسری گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ’الباکستان‘ لکھا ہوتا تھا؟ یہ نمبر پلیٹ اب کیوں نظر نہیں آتی؟ کاغذ کی کشتیاں چلانے والے خراسانی کیا ہوئے؟ وہ لوگ کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی میں کامیابی کا امکان صرف چالیس فیصد ہے؟ وہ بزرجمہر کہاں ہیں جنہیں عذر تھا کہ مشرقی سرحد پہ غیر یقینی حالات کے باعث شمالی وزیرستان میں کارروائی ممکن نہیں؟

طالبان کے دفاتر کھولنے کا مطالبہ کرنے والے لوگ کون تھے؟ چوہدری نثار علی فرماتے ہیں کہ طالبان کے خلاف ضرب عضب فوج نے یا نواز شریف نے نہیں، میں نے شروع کیا۔ اے صدقے، اس عہد ابتلا میں ہماری یادداشت ہی تو باقی ہے۔ یکم نومبر 2013ء کو حکیم اللہ محسود مارا گیا تو چوہدری نثار نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرمایا تھا کہ امن مذاکرات پہ ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔ یہ صرف پانچ برس پہلے کی تصویریں ہیں۔ آج اس منظر کی ہر تفصیل تبدیل ہو چکی سوائے ایک سوال کے۔

2013 میں بھی کوئی یہ نہیں پوچھتا تھا کہ لوگ کسے ووٹ دیں گے؟ 2018ء میں بھی ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ فلم کا انجام کیا لکھاگیا ہے؟

مشکل یہ ہے کہ فلم بنانے کی تکنیک میں انقلابی تبدیلیاں آ گئی ہیں لیکن کہانی نویس آزمودہ فارمولے کو تبدیل کرنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہا۔

1970ء کے بعد یہ پہلا انتخاب ہے جس میں قوم کو واضح سوالات کا جواب دینا ہے۔ ایک طرف قومی سلامتی کا وہ ماڈل ہے جو محدود جمہوریت اور بے اختیار پارلیمنٹ کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسری طرف حقیقی پارلیمانی جمہوریت کا وہ نمونہ ہے جو عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا دروازہ کھولتا ہے۔ ایک طرف مالی کرپشن کے قابل تحقیق الزامات ہیں جن میں یقینی طور پر بہت سی حقیقت بھی پائی جاتی ہے، دوسری طرف ادارہ جاتی کرپشن کا سوال ہے۔

اگر کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال اور ذاتی مفادات کے حصول کا نام ہے تو قومی تاریخ کے ان تین عشروں کا ہر لمحہ کرپشن سے عبارت تھا جب عوام کو ان کے حق جمہور سے محروم کر کے بدترین بدعنوانی کا ارتکاب کیا گیا۔ اس میں مالی، تمدنی اور سیاسی بدعنوانی کا ہر زاویہ پایا جاتا تھا۔ جمہوری قیادت کی ساکھ بگاڑنے کی مربوط مشق کی گئی۔ کراچی شہر پر مسلط کی گئی لسانی جماعت تیس برس تک دندناتی رہی۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تنظیمیں بنائی گئیں۔ بنیاد پرستی کو ریاستی پالیسیوں، ذرائع ابلاغ اور نصاب تعلیم سے تقویت دی گئی۔

سوال یہ ہے کہ اس دوران جو ہزاروں جانیں تلف ہوئیں، ان گنت افراد زخمی ہوئے، ہزاروں گھرانے برباد ہوئے، لاکھوں عالی دماغ شہری اس ملک کو چھوڑ کے چلے گئے۔ دو نسلیں معمول کی زندگی سے محروم ہوئیں، قانون کی عملداری میں جو رخنے آئے، اس سب خسارے کی میزان کہاں ہے؟ صحافت کو محمد صلاح الدین، سلیم شہزاد، حیات خان، ولی بابر اور ارشاد مستوئی واپس لوٹا دیجیے۔ تمدن کو حکیم سعید، پروین رحمن اور سبین محمود واپس کر دیجئے۔ عارف اقبال بھٹی، محسن نقوی اور راشد رحمن کو کہاں سے ڈھونڈیں؟

تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو… جہاں کوئلوں پہ احتساب کی مہر لگائی جا رہی ہے، وہاں اشرفیوں کا حساب بھی ہونا چاہئے۔ ٹھیک دس برس قبل کچھ احباب کو عدلیہ کی آزادی کا مراق ہو گیا تھا۔ آج ان مہربانوں کی تیمار داری کے دن ہیں۔

صحافت کے سینے پہ دھرا خوف کا پتھر اسی صورت ہٹایا جا سکتا ہے جب یہ سوال کیا جائے کہ مئی 2013ء میں منتخب ہونے والی حکومت سے ایسی کیا خطا سرزد ہوئی کہ چار مہینے کے اندر اندر بجوگ پڑ گیا۔ اس ناگہانی ابتلا سے پنجہ آزمائی کرتے ہم جون 2018ء تک پہنچے ہیں۔ اس سوال کے ایک سے زیادہ جواب ممکن ہیں لیکن ایک نکتہ بالکل واضح ہے۔ اس ملک کو پچھلے دس برس میں جس طرح چلایا گیا ہے اگر اس رویے پر نظرثانی نہیں کی جاتی تو 25 جولائی کے بعد بھی ہمیں استحکام نصیب نہیں ہو گا۔ عام انتخابات چومکھی مجادلے کی خبر دے رہے ہیں۔

ایک طرف کمزور جمہوری قوتیں ہیں جو رائے دہندگان کے سیاسی شعور پر بھروسہ کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ جمہوری قوتوں نے رائے دہندگان کی سیاسی تربیت کی ذمہ داری کہاں پوری کی؟ دوسری طرف پشتینی اثر و رسوخ کی بنیاد پر انتخابی دنگل میں حصہ لینے والا پیشہ ور انبوہ ہے۔

تیسری جانب وہ سوچ ہے جو سرکاری اسٹیشنری پر لکیریں لگا کے قوم کا نصب العین متعین کرنا چاہتی ہے۔ چوتھا زاویہ یہ ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہمارا ملک اجتماعی ساکھ کے بحران سے دوچار ہے۔ پانچویں مشکل یہ ہے کہ دستور، تعلیم، ذرائع ابلاغ اور اداروں میں بچھائی بارودی سرنگوں کی فصل پر برگ و بار آ رہا ہے۔ ہمارے تحریری دستور کو متعین طریقہ کار اور غیر متعین تصورات کا ملغوبہ بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ دستور اور قانون کی من مانی تشریح کا دروازہ کھل گیا ہے۔

کسی کو خبر نہیں کہ کون گردن زدنی ہے اور کس کا دامن صاف ہے۔ مالی اثاثوں کی تفصیل میں کتنی صداقت ہے اور آف شور امانتوں کی تقدیس کا معیار کیا ہے۔ وی آئی پی کلچر کسے کہتے ہیں اور قومی ترقی کس بلا کا نام ہے۔ آئیے فیض صاحب کو یاد کرتے ہیں۔

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہل صفا کے ہیں، یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے