عہد یوسفی یا عہد بغاوت؟

یہ دس سال پہلے کی بات ہے، پرویز مشرف پاکستان کے صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ مسلم لیگ(ن) معزول ججوں کو بحال نہ کرنے کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہوچکی تھی اور مجھ سمیت بہت سے اہل صحافت نے معزول ججوں کی بحالی کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا تھا۔

پرویز مشرف اور ان کے حامی ہم جیسے گستاخوں کو نواز شریف کا زرخرید غلام قرار دے کر اپنی انا کو تسکین دیا کرتے اور جب یہ تسکین کچھ کم ہوتی تو لندن میں بیٹھے مشرف کے ایک اتحادی ٹیلی فونک خطاب کے ذریعہ ہمیں ایسی ایسی گالیوں سے نوازتے کہ ان کا خطاب سننے والی شریف بیبیاں اپنے چہرے آنچلوں میں چھپا لیتیں۔انہی دنوں کراچی آرٹس کونسل میں میڈیا کی آزادی پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا اور مجھے اس سیمینار میں خطاب کی دعوت دی گئی۔

مجھے ایک خیر خواہ نے کراچی سے فون کیا اور اس سیمینار میں نہ آنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کے حامی دانشوروں کے ذریعہ تم جیسے جمہوریت پسندوں کو پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قرار دینے کا ایک منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ مشرف صاحب کی انا کی تسکین کا کچھ سامان ہوسکے، لہٰذا کراچی کا رخ مت کرو۔میں نے کراچی پریس کلب کے کچھ دوستوں سے مشورہ کیا۔ ان کا موقف تھا کہ مجھے سیمینار میں ضرور آنا چاہئے اور اہل صحافت کا نکتہ نظر بھرپور انداز میں پیش کرنا چاہئے۔

کراچی پریس کلب والوں کی شہ پا کر میں کراچی آرٹس کونسل کے سیمینار میں جادھمکا جہاں حسب توقع ملک کے کچھ معروف دانشوروں نے میڈیا کی آزادی کو وطن عزیز کی بقاء کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ جناب محترم انور مقصود صاحب نے بڑے نستعلیق اور شستہ لہجے میں کہا کہ جس ملک میں تعلیم کی کمی ہو وہاں میڈیا کو آزاد نہیں ہونا چاہئے۔

میں نے بڑے احترام کے ساتھ انور مقصود صاحب سے اختلاف کیا اور کہا تعلیم کی کمی کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظمؒ پر اعتماد کیا اور قائد اعظمؒ نے ان پڑھوں کی مدد سے پاکستان بنا ڈالا، اب اس پاکستان میں قائد اعظم کی بات چلے گی کسی ڈکٹیٹر کی بات نہیں چلے گی۔ڈاکٹر انور سجاد اور فرہاد زیدی نے بھی میڈیا پر خوب تنقید کی اور میں نے اس تنقید کا بھرپور جواب دیا۔ اس سیمینار میں مشتاق احمد یوسفی صاحب حاضرین میں بیٹھے ہوئے تھے اور بڑے غور سے کارروائی سن رہے تھے۔ اسٹیج پر بیٹھے مقررین کی اکثریت میڈیا کی آزادی سے نالاں تھی اور میں بڑے غور سے یوسفی صاحب کے تاثرات کو دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے آزادی اظہار کے مخالفین کو بہت غور سے سنا لیکن داد نہیں دی۔میری تقریر شروع ہوئی تو مشتاق احمد یوسفی صاحب نے خوب تالیاں بجائیں۔

انکی تالیوں نے صرف میرا نہیں بلکہ سامعین میں بیٹھے ہوئے حبیب جالب کے بھائی سعید پرویز کا بھی حوصلہ بلند کیا اور انہوں نے بلند آواز میں ڈکٹیٹروں کو صلواتیں سنانی شروع کردیں۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب تین گھنٹے تک اس اوپن ائر سیمینار میں موجود رہے۔ سیمینار ختم ہوا تو میں بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور سلام عرض کرنے کے بعد شکریہ ادا کیا تو انہوں نے تھپکی دیکر کہا….’’بہت خوب، زبردست، واہ واہ‘‘۔

انکے یہ الفاظ میرے لئے کسی تمغے سے کم نہ تھے۔انہوں نے اپنی تالیوں سے میری حوصلہ افزائی کی لیکن اپنے لئے خطرات کو دعوت دی، جس شہر میں رئیس امروہوی کو انکے گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا اور جون ایلیا کو سرعام رسوا کیا گیا وہاں مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی تالیوں سے خطرات کو پکارا نہیں بلکہ للکارا تھا۔ میں تو اسی شام کراچی سے واپس اسلام آباد آگیا لیکن یوسفی صاحب کو تو وہیں رہنا تھا۔

کراچی آرٹس کونسل میں ہونیوالے اس سیمینار کے چند ہفتوں کے اندر اندر پرویز مشرف کو استعفیٰ دیکر پاکستان سے بھاگنا پڑا، کچھ عرصہ بعدمعزول جج بحال ہوگئے لیکن آزادی اظہار اور جمہوریت کیلئے خطرات کم نہیں ہوئے۔

کچھ عرصہ قبل مشتاق احمد یوسفی صاحب کی طبیعت بگڑی تو اس ناچیز نے کراچی آرٹس کونسل کے موجودہ صدر احمد شاہ کے ذریعہ یوسفی صاحب کی مزاج پرسی کی اور شاہ صاحب نے میری طرف سے پھولوں کا ایک گلدستہ بھی انہیں پیش کردیا۔ یوسفی صاحب کے انتقال پر میں نے تعزیت بھی احمد شاہ سے کی۔یوسفی صاحب کے انتقال پر کہا گیا کہ عہد یوسفی کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ خاکسار بڑے ادب سے ان احباب کیساتھ اتفاق نہیں کرتا جو یہ سمجھتے ہیں کہ عہد یوسفی ختم ہوگیا۔ میں عطاء الحق قاسمی صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ جب تک یوسفی صاحب کی چار کتابیں ہمارے ساتھ ہیں عہد یوسفی ختم نہیں ہوسکتا۔

یوسفی صاحب نے97سال کی زندگی میں صرف چار کتابیں لکھیں۔ وہ زود نویس نہیں تھے، بہت سوچ سمجھ کر لکھتے تھے۔ صرف مزاح نگار نہیں تھے بلکہ اپنے سماج کے ایک ایسے نقاد تھے جو کبھی کبھی ڈاکٹر بن کر سماج کی بیماریوں کی ناصرف نشاندہی کرتا بلکہ الفاظ کے نشتر سے آپریشن بھی کرڈالتا تھا۔ یوسفی صاحب کو بغاوت میراث میں ملی تھی۔ ان کے والد عبدالکریم یوسف زئی ایک دفعہ جے پور سے پشاور آئے تو انہوں نے مقامی عمائدین کو بتایا کہ وہ بھی پختون ہیں۔

کسی نے کہا کہ پشتو بول کر دکھائو۔ عبدالکریم یوسف زئی نے بتایا کہ انکے بزرگ کافی عرصہ پہلے وادی پشاور سے راجھستان چلے گئے تھے وہ وہیں پلے بڑھے اس لئے پشتو نہیں بول سکتے۔یہ سن کر انکا بہت مذاق اڑایا گیا۔ وہ واپس جے پور گئے اور انہوں نے اپنا نام عبدالکریم یوسف زئی سے بدل کر عبدالکریم یوسفی رکھ لیا۔ ان کے برخوردار مشتاق احمد نے بھی اپنے والد کی طرح یوسف زئی کے بجائے یوسفی کو نام کا حصہ بنایا اور جب وہ قیام پاکستان کے بعد کھوکھر ا پار کے راستے پاکستان آئے تو مشتاق احمد یوسفی کہلائے۔

یوسفی صاحب کے والد اگر آج کے دور میں زندہ ہوتے تو شاید ان کا مذاق نہ اڑایا جاتا کیونکہ آج کل بہت سے’’خان‘‘ ایسے ہیں جو پشتو کا ایک لفظ نہیں بول سکتے لیکن پختون ان پر جان دیتے ہیں۔

یوسفی صاحب کے انتقال کے بعد کچھ کرم فرما انہیں صرف ایک مزاح نگار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ میں انہیں ایک فلسفی اور جمہوریت پسند ادیب کے طور پر خراج تحسین پیش کرنے کی جسارت کروں گا جس نے’’آب گم‘‘ میں لکھا کہ’’لیڈر خود غرض، علما مصلحت بین، عوام خوفزدہ اور راضی برضائے حاکم، دانشور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہوجائیں تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے‘‘۔

یوسفی صاحب نے آگے چل کر لکھا کہ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الا نا نیت سے پیوست ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے امور سلطنت پر وفور تمکنت اور ہوس حکمرانی غالب آتی ہے، آمر اپنے ذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینیوں کو وطن کا غدار اور دین کا منحرف قرار دیتا ہے۔ یوسفی صاحب کی تحریر میں آمریت سے نفرت کیساتھ ساتھ ماضی پرستی سے بیزاری بھی نظر آتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ قومیں کبھی کبھی اپنے اوپر ماضی کو مسلط کرلیتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے جو قوم جتنی پسماندہ، درماندہ اور پست حوصلہ ہو اس کو اپنا ماضی اتنا ہی زیادہ درخشاں نظر آتا ہےاور ماضی بھی وہ نہیں جو واقعتاً تھا بلکہ وہ جو اس نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق از سرنو گھڑ کر آراستہ و پیراستہ کیا ہے۔ اس ناسٹلجیا کو یوسفی صاحب نے لمحہ منجمد کی داستان قرار دیا ہے۔

عہد یوسفی دراصل اس لمحہ منجمد کی داستان ہے۔ اس لمحہ منجمد سے نکلنے کی کوشش جاری رہنی چاہئے۔ جب تک آزادی اظہار پر پابندیاں ختم نہیں ہوتی اور جمہوری اداروں کو غلام بنانے کی سازشوں کو ناکام نہیں بنایا جاتا’’آب گم‘‘ کی اہمیت ختم نہیں ہوگی اور بغاوت کسی نہ کسی انداز میں جاری رہے گی جب تک بغاوت ختم نہیں ہوگی عہد یوسفی بھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ یہ دراصل عہد بغاوت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے