’’ڈیلی میل‘‘ اور میاں پراپرٹی ڈیلر

ڈھائی دن تو اسلام آباد کھاگیالیکن میرے ڈھائی دنوں کی کیااوقات کہ یہ شہر تو قوم کے کئی سال کھا گیا۔ یہ شہر سر و کے پودے جیسا ہے یعنی دیکھنے میں خوبصورت لیکن نہ پھل نہ پھول نہ چھائوں اور کوئی چڑیا بھی چاہے تو اس میں پناہ نہیں لے سکتی۔

پچھلے دنوں دو دن کے مہمان نگران وزیر اعظم کا تام جھام، پروٹوکول دیکھا تو ایک عجیب سا خیال آیا کہ جب اس شہر میں بڑے بڑے ہائوسز یعنی پارلیمینٹ، پریذیڈنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس وغیرہ کی تعمیر شروع ہوئی تو شاید یہود و ہنود نے ان تمام گھروں کی بنیادوں میں تعویذ رکھوا، دبوا دیئے ہوں گےکہ جو کوئی ان عمارتوں میں داخل ہوگا، وہ پاگل سا ہوجائے گا اور اس پاگل پن کا مطلب یہ کہ پیسے اورپروٹوکول کے لئے اس کی بھوک بےکراں ہو جائے گی۔ جس شرح سے اسے پیسہ اورپروٹوکول ملےگااسی تناسب سے اس بائولے کی بھوک بڑھتی چلی جائے گی۔

بھٹو کی پھانسی پر اسلام آباد اوربیوہ بیگم نصرت بھٹو کے حوالے سے مرحومہ نسرین انجم بھٹی نے نظم کی صورت میں ایک نوحہ لکھا تھا جس کا یہ مصرعہ مجھے آج بھی ہانٹ کرتا ہے۔’’اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینہ آئی ہوں‘‘واقعی یہ عوام کے لئے کوفہ سے کم نہیںکہ یہاں سے ہمارے تمہارے لئے خیر کی خبر کم کم ہی آتی ہے۔ مثلاً اس تازہ خبر کا تو جواب ہی نہیں کہ معتبر برطانوی اخبار’’ڈیلی میل‘‘ کی رپورٹ کے مطابق وہاں شریف خاندان کی 21جائیدادیں ہیں جو نواز شریف کی طرف سے پاکستانیوں کو21 توپوں کی سیاسی و جمہوری سلامی سے کم نہیں۔صرف دو ذیلی سرخیاں پڑھ لیں تاکہ ووٹ کو عزت دینے میں آسانی رہے۔

’’پارک لین میں 16، 16اے، 17، 17اے4اپارٹمنٹس، نیلسن نیسکول کو نوازشریف کنٹرول کرتے ہیں۔ رقوم کے ذرائع آج تک سامنے نہیںآئے ( یادکریں وہ ڈائیلاگ جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع) برطانوی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا تحقیقاتی اداروںکو خط۔’’پاکستانی عدالتوںنےابھی تک کئی جائیدادوں کو ڈسکس ہی نہیں کیا۔ شریف فیملی کا برطانیہ میں رئیل اسٹیٹ کا بھی بزنس۔ برطانوی حکومت نواز شریف کے خلاف رکاوٹ بننے لگی۔‘‘

برطانوی اخبار’’’حسین نواز کا موقف دینے سے انکار‘‘ (فراری بھی انکاری بھی)چمچے، کڑچھے، طفیلیے، خیراتیے اور مالیشیے اس انکشاف پر بھی ڈھٹائی سے اسے ’’سازش‘‘ قرار دے رہے ہیں تو کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستان میں تو منی ٹریل دینے کی بجائے تم ’’فیری ٹیلز‘‘ سنا رہے ہو، عدالتوں پر انگلیاں اٹھارہے ہو لیکن انگلینڈ میں کیا تکلیف اور کون سی خلائی مخلوق ہے؟

جائو وہاں کی عدالتوں میں اور اس برطانوی اخبار پر ہتک عزت کا دعویٰ کرو، اگر واقعی عزت دار ہو تو اربوں ڈالر کا ہرجانہ طلب کرکے’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اپنی عزت بحال کرو۔ یہ تمہارا برطانیہ ہے ہمارا پاکستان نہیں جہاں فیصلے ہونے میں 88سال اور کئی نسلیں خرچ ہوجاتی ہیں۔

یہاں تو ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے، وہاں بھی کوئی کرتب دکھائو کہ تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پرائم منسٹر رہنے والے کے پلے اس اخبار نے چھوڑا ہی کچھ نہیں تو اپنی نہ سہی پاکستان کی عزت کے لئے ہی برطانوی عدالتوں کی ’’زنجیر عدل‘‘ ہلائو لیکن اگر تم ’’پرائم منسٹر‘‘ نہیں….. اندر سے صرف صرف اور صرف ایک پراپرٹی ڈیلر ہو توتم یہ رسک کبھی نہیں لو گے جیسے چند سال پہلے ریمنڈ بیکر کی کتاب پر بھی تم نے مٹھ رکھ لی تھی، خاموشی اختیار کرلی تھی حالانکہ میں بار بار کہہ رہا تھا کہ اس گورے نے تم پر کمیشن کک بیک کے الزامات لگائے ہیں؟

اس کے خلاف عدالت میں جائو لیکن اب….. اب بھی اگر تم عدالت سے رجوع نہیں کرتے تو؟؟؟روزِ اول سے کہہ رہاہوں کہ اللہ کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آچکی اور یہ لوگ قانون نہیں، قانون قدرت کی پکڑ میں ہیں ورنہ کہاں یہ سیلف میڈ ظل سبحانی، ہوم میڈ قائداعظم ثانی اور کسٹم میڈ شیرشاہ سوری ثانی اور کہاں یہ بیچارے زعیم قادری اور عبدالغفور میو۔ قادری اور میو کا ساتھ چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے سایہ بھی ساتھ چھوڑ جائے۔ایک اوربدشگونی کہ احسن اقبال جیسے نسبتاً بہتر اور پڑھے لکھے شخص کی بھی مت ماری گئی ہے جو مسلسل یہ مالا جپ رہا ہے کہ’’پاکستان کسی اناڑی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘ تو کوئی اس سے پوچھے جب یہ ملک بائو شریف مرحوم و مغفور کے برخوردارکے حوالے ہوا تب تمہارے خیالات کیا تھے؟

ٹرمپ، باراک اوباما اور بل کلنٹن وغیرہ صدر بننے سے پہلے کتنی بار صدر رہ چکے تھے؟ رہ گیا تمہارا تجربہ کار پراپرٹی ڈیلر قائد تو اس کے تجربے کی تفصیلات تو پاناما سے ڈیلی میل تک موجود ہیں۔ لگتا ہے ابرارالحق نے بری طرح’’داخلہ‘‘ کردیا ہے۔

مجھ سےکسی نے پوچھا احسن اقبال اور ابرار الحق میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا ’’دونوں ہی فنکار ہیں صرف فیلڈ کا فرق ہے۔‘‘ ادھر سنا سردارایاز صادق کوبھی علیم خان خوابوں میں ڈرانے لگا ہے۔آگےآگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے