رودرآکش کی حقیقت

آج کل پاکستان میں بھی ایک نئی روایت جنم لے رہی ہے اور بہت سارے لوگ یا تو مذہبی ہو رہے ہیں یا صوفی اور ان صوفیؤں میں جو برائی جڑ پکڑ رہی ہے وہ ہے رودرآکش کو لیکر کہ اسکے بہت سے فوائد ہیں وغیرہ۔ فوائد ہیں بے شک ہیں لیکن رودرآکش میں نہیں بلکہ آپکی روح میں۔

روح کا کوئی عقلی یا سائنسی وجود نہیں ہے اور اگر دیکھا جائے تو روح کی بابت سوال پر ﷲ رب العزت نے جہاں اسکو اپنا حکم قرار دیا تو دوسری طرف فرمایا کہ اسکا تم کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔

انسان چاہئے جس مذہب کا ہی کیوں نہ ہو جیسے جیسے روحانیت سے جڑتا اور اسمیں ڈوبتا جاتا ہے اور اسکو دماغ کی طاقت سمجھ آنے لگتی ہے تو ایک طرف تو وہ اپنے ماحول والے پیدائشی مذہب سے دور ہوتے ہوتے نہ صرف اس سے نکل جاتا ہے بلکہ دنیا کہ باقی مذاہب کے لئے اسکا تعصب بھی یکلخت غائب اور دفع ہوجاتا ہے ۔

اسی سبب صوفی چاہے کسی بھی مذہب کا ہو وہ محبت ہی دیتا ہے جبکہ مذاہب کی بنیاد شریعت یعنی خدائی قانون پر ہوتی ہے تو اسکی آمد پر آپس میں نفرت تعصب اور جنگیں برپا ہوئی ہیں۔ کیونکہ قانون عدالت کرتا ہے جزا و سزا کے فیصلے کرواتا ہے ۔ شریعت ہی گناہگار ٹھراتی ہے ورنہ جرم کی وضاحت تو ہر عاقل کیا بچے کو بھی ہے ۔ اور 100% میں سے 99.8 پرسینٹ مجرمانہ اقدام کبھی نہیں اٹھاتے۔ جبکہ شریعت کی رو سے ہر نفس گناہگار ہے ۔
یہاں پر بات شرک اور توحید کی نہیں کی جارہی میری بات پر غور کیجئے گا۔

دنیا کی سب سے پہلی جنگ اگر معلوم تاریخ میں دیکھا جائے تو وہ مہابھارت تھی ۔ جو کہ شریعت کی بنیاد پر لڑی گئی ۔ جو خیر اور شر کی جنگ مانی جاتی ہے۔ ورنہ بھوک اور بقاء کی کئی خونریز جنگیں ایریکٹس اور نیندرتھلز کے درمیان ہوتی رہیں ہیں۔ شری کرشن ان کے ماننے والوں کی نظر میں ایک شریعت یعنی خدائی قانون والے نبی (نبوت کرنے والا / خدا کیا باتیں بتانے والا) اور رسول (خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے) تھے ۔ اور جب امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا کنکر ساکن اور جامد پانی میں پڑتا ہے تو ارتعاش پیدا ہوکر رہتا ہے۔ اسی سبب مہابھارت لڑی گئی ۔

معلوم تاریخ میں اگر دنیا کا پہلا سنیاسی یا روحانی صوفی ڈھونڈیں تو وہ شیو جی تھے ۔ جنھوں نے دنیا تیاگ کر موہ مایہ سے منہ موڑ کر انکساری کے لئے شمشان کی مٹی سے اسنان کیا اور اپنا سارا عیش و آرام تیاگ کر گلے میں بہت عاجزی کے ساتھ گریہ کرتے ہوئے رودرآکش کی مالا پہنی۔

یہ رودرآکش کیا ہے ؟ رودر شیو جی کا ایک ایک نام ہے اور آکش کا مطلب آنسو۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ رودرآکش شیو جی کے آنسو سے بنا درخت کا بیج ہے اور اب اسکے لئے بہت سی مانیتائیں اور آستھائیں گھڑ لی گئی ہیں اور ایک موکھی رودرآکش سے لیکر پینتیس موکھی رودرآکش مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور سب کے لئے الگ الگ قسم کی مانیتائیں , شردھا اور اعتقاد و فوائد گردانے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو شیو جی نے یہ رودرآکش کی مالا عاجزی میں پہنی تھی ۔ کہ یہ درخت نپال میں کثرت سے پایا جاتا رہا ہے۔ اور شیو اپنے استھان کیلاش (تبتین) پر سنیاس کے لئے جاتے ہوئے یہ بکثرت پنپتی بےمول بیج کا ہار بناکر ڈال لئے تھے۔

لیکن آج جو لوگ بھی روحانی یا سنیاسی ہیں انکو یہ رودرآکش عاجزی نہیں بلکہ تکبر دیتا ہے۔ کیونکہ آج رودرآکش کے نام پر کاروبار شروع کردیا گیا ہے۔ یقین جانئے ایک مکھی رودراآکش ایک سے دیڑھ لاکھ تک کا ملتا ہے ۔ اور اس پر بھی بس نہیں اسکو بھی سونے کی کپی میں ڈال کر پہنا جاتا ہے۔ تو عاجزی کہاں ہو روحانیت کہاں ہو۔

گرہ سے باندھ لیں اگر کوئی بھی صوفی یا گرو آپ کو رودرآکش پہنے کا مشورہ دے تو جان لیں اسکا بھی رودرآکش کا اسٹور ہے۔ اور وہ بھی یہ بےمول بیج لاکھوں کا بیچ رہا ہے۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ رودرآکش سے موہ مایا مٹ جاتی ہے اور انسان پورا جہاں پراپت کرلیتا ہے تو دوستوں جسکو اس رودرآکش کی وجہ سے سب کچھ مل گیا تو وہ اسکو بیچ ہی کیوں رہا ہے۔ وہ اپنا رودرآکش اپنے پاس رکھتے ہوئے باقی کا سب دان کردے گا کہ لے جا بچہ ۔ تیرا کلیان ہو ۔ وہ بیچے گا کیوں ۔ کم اذ کم سنیاسی یا روحانی موکش پانے والے امیدوار کو ہرگز نہیں بیچے گا ۔ البتہ جو دنیادار دنیا کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں انکو ضرور ضرور بیچے ۔

آج جس جس کو روحانیت اور موکش پانا ہو اور کچھ دنوں کا سنیاس لینا ہو تو وہ رودرآکش نہ پہنیں بلکہ اپنی سوسائٹی کے حساب سے وہ حقیر کام کرے جو اسکی انا اور نفس پر چوٹ لگائے ۔ خود کو بلیڈ مارنے یا سوئیاں چھبھونے سے نہ موکش ملتا ہے نہ ہی روحانیت ملتی ہے اور نہ ہی نفس کشی ہوتی ہے۔ نفس کشی اپنی انا کو نکالنے میں ہے ۔ جس دن انا نکل گئی اسی دن روحانیت بھی آجائے گی۔ اور موکش بھی مل جائے گا ۔

ایک بہت اہم بات بتاتی چلوں کہ تمام مذہبی حلقوں میں صوفیوں کو لیکر یہ غلط فہمی عام ہے کہ وہ ملحد ہوتے ہیں ۔ تو جان لیجئے وہ ملحد نہیں ہوتے ہیں ۔ کیونکہ جو ملحد ہوتا ہے اسکو ذہنی سکون میسر نہیں ہوتا۔ وہ ہر دم خود سے لڑتا رہتا ہے کہ کسی طرح خدا اور رسول کے انکار کے بعد اس بات کی ریپیٹیشن جاری رہے کہ خدا اور مذہب نہیں ہیں کہ کہیں اسکو ان کے ہونے کا یقین نہ آجائے۔ دراصل وہ اندر سے ڈرا ہوا ہوتا ہے عین اسی مذہبی کی طرح جو بار بار خدا کی اور مذہب کی بات کرکرکے خود کو یہ یقین دہانی کرواتا رہتا ہے کہ خدا ہے ۔ رسول سچا ہے ۔ مذہب سچ ہے ۔ آخرت ہے ۔ سزا , جنت جہنم سب ہے ۔ میں درست راستے پر ہوں وغیرہ ۔ جبکہ صوفی ہر چیز سے موکش پالیتا ہے۔ اس لئے سکون میں آجاتا ہے۔

گناہ اور جرم وہ کرتا نہیں کہ اسکو سزا اور جہنم کا خوف ہو۔ سب سے بلاجنسی , نسلی اور مذہبی تفریق کے اچھا سلوک اور خدا سے اچھا گمان اسکو جنت کے راستے پر لیکر اسکی دنیا بھی جنت بنادیتا ہے۔

صوفی کے گہرے مراقبے علم کے دروازے کھولتے جاتے ہیں اسکی جین میں چھپے کوڈز اس پر ڈی کوڈ ہوتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ علم ہمارے اندر ہے ۔ یہ سب ہماری جین میں ہے۔ جب انسان سنیاس لے بھلے وقتی سنیاس بھلے ہفت روزہ یا سہہ روزہ یا ماہانہ سنیاس لے ۔ بھلے وہ ایک لفظ بھی نہ پڑھا ہو۔ لیکن ایک ہی مدعے پر گہرے دھیان غور و فکر سے تمام علوم اور گتھیاں ڈی کوڈ ہوجاتی ہیں۔ آنکھ بند کرکے غور و فکر کرنا اور اپنے دماغ کو آزاد چھوڑنا اور جو خیال مدعے کے مطابق آرہا ہے اسی پر بہتے جانا مراقبہ ہے۔ (مراقبوں کی اقسام پھر کبھی )

انسان جیسے جیسے مراقبہ کرتا جاتا ہے اسکے جسم کے اردگرد اسکا Aura مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اسکی الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ سے اس پر لاء آف اٹریکشن کام کرنے لگتا ہے ۔ جسکی وجہ سے اسکا دماغ نہ صرف کائنات کے تمام راز پاتا جاتا ہے بلکہ وہ کسی بھی سوچی یا کہی گئی بات کو مینوفیسٹ کردینے کی صلاحیت بھی رکھ لیتا ہے۔
پھر چاہئے وہ دعا ہو یا بدعا ۔

جیسے بہت ہی مضبوط Aura اور دماغ کا انسان یہ پیشن گوئی کردے کہ کل طوفانی بارش ہوگی اور اس قدر طوفانی بارش ہوگی کہ سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا۔ اور پر یقین ہو کر اس طوفان سے بچنے کا تمام تر سامان بھی کرنا شروع کردے اور بار بار سب کو اپنی کہی گئی بات کی یقین دہانی کرواتا رہے تو اسکا کہا گیا ہوکر رہتا ہے ۔ کیونکہ اسکا دماغ یہ سب مینوفیسٹ کرلیتا ہے۔

جو صوفی واقعتاً سعید روح ہوتے ہیں وہ اپنی تمام تر طاقتوں کو خدا کا وردان مانتے ہیں اور لوگوں کو بھی یہی باور کرواتے ہیں۔ لیکن جو بد قماش قسم کے سنیاسی آگھوری یا روحانی پیر فقیر وغیرہ ہوتے ہیں وہ اسکو اپنی طاقت گردانتے اور لوگوں پر جتاتے ہیں۔ اور ان ہی جیسے خبیثوں کی وجہ سے مذہبی انتشار پھلتا ہے۔ یہ بظاہر سنیاسی ہوتے ہیں مذہبی یا روحانی بابے ہوتے ہیں لیکن انکی موہ مایا گٹھی میں پلی ہوتی ہے۔ آپ فیس بک پر ہی دیکھ لیں ۔ ہم سب اپنی اپنی تحریروں سے ہی عالم , فاضل , جاہل , ملحد , متقی یا فلرٹ جانے جاتے ہیں۔ ہم یہاں کے معاشرے میں بھی صوفی منش اور موہ مایا کا رسیا بھانپ سکتے ہیں۔

کیونکہ سوشل میڈیا پر دو طرح کے ہی لوگ (لکھاری) ہیں ایک وہ شخص جو بلا جنسی اور مذہبی تفریق اور تعصب کے آپکو اپنا ذاتی علم دے رہا ہو اور اسکو اپنی لائک کمینٹ فرینڈ لسٹ اینڈ فالور کا بھی چکر نہ ہو ۔

دوسرا وہ شخص جو سیاست یا مذہب کو لیکر تعصب پھلاتا ہو نفرت کا پرچارک ہو۔ اور ایک ہی وشے میں مسلسل کئی سالوں سے اپنا قلم ” مفت ” میں گھس رہا ہو تو ایسا شخص بلامعاوضہ قلم نہیں گھس رہا بلکہ ایسا شخص پیڈ ہے . فتنہ ہے . دیندار نہیں عیار ہے . صوفی منش نہیں صوفی کے روپ میں بھیڑیا ہے جو سب کے ایمان ہڑپ رہا ہے اور وقت پڑنے پر عزت بھی ہڑپ جاتا ہے۔

صوفی جس مذہب کا بھی ہو انکے بڑے سے بڑے اجتماع پر بھی مایا کی چھاپ نہیں ملے گی۔ ورنہ مذہبی اجتماع کی وجہ سے اہل زمین پر زائرین اور یاتریوں کی طرف سے اس قدر دھن دولت کی بارش ہوتی ہے کہ سارا سال عیاشی والی مستی میں شرابور رہتے ہیں۔ کیونکہ مذہبی مذہب کو مذہب اور خدا کے نام پر بیچ ڈالتے ہیں ۔ جبکہ صوفی کو کسی قسم کی نشانی بت یا مرکز کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اسکا سارا ارتکاز اسکی آنکھ موندھ لینے کی دیری پر ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے