تُرک انتخابات۔۔۔اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے!

۲۰۰۳میں رجب طیب اُردگان بطور وزیرِ اعظم تُرک مسندِ اقتدارپرجلوہ فگن ہوئے ۔۳بارمسلسل وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد ۲۰۱۴میں بطور صدر مسندِ قتدار پر براجمان ہوئے۔۲۰۱۶ میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کی جوتاحال نافذ ہے ۔گزشتہ برس انھوں نے صدارتی نظام متعارف کرانے کے لیے ریفرنڈم کرایا جس میں وہ کامیاب ٹھہرے ۔۲۰۱۹ میں صدارتی انتخاب ہوناتھے مگر اردگان نے ۲۴جون ۲۰۱۸کوقبل ازوقت انتخابات کرانے کااعلان کیااورایک بار پھروہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر فاتح ٹھہرے جبکہ اسی روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں انھی کی جماعت آق پارٹی باقی جماعتوں سے آگے ہے ۔

پاکستان کی عوام وسیاسی راہنماؤں کوترکی اورطیب اردگان سے ایک لگاؤ ہے جس کے سبب سے ان کی کامیابی کے لیے باقاعدہ دعائیں بھی کی گئیں جبکہ کامیابی کے بعد خوشی کااظہار بھی کیاجارہاہے۔پاکستان کے عام انتخابات میں اس وقت تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز ایسی جماعتیں ہیں جن کامقابلہ ہونے جارہاہے ۔دونوں جماعتوں کے کارکن ہی اس بات پر خوش ہیں کہ جیسے اُردگان کوفتح ملی اسی طرح ہماری قیادت کوبھی فتح نصیب ہوگی۔دوسری طرف زیادہ خوشی مذہبی سیاسی جماعتوں کوہے کہ اردگان ایک مذہبی سیاست دان ہیں اوران کی فتح اس بات کی نوید ہے کہ پاکستان میں بھی مذہبی سیاست کامستقبل روشن ہوگا۔

تحریک انصاف کے راہنما عمران خان چوں کہ خود مسندِ اقتدار پر فائز نھیں رہے مگر مسلم لیگ نواز کی قیادت دو ،دو ،تین ،تین بار مقتدر رہ چکی ہے ۔مذہبی سیاست بھی قیام پاکستان سے جاری ہے جس میں جمعیت علما اسلام اورجماعت اسلامی اہم ہیں ۔میاں برادران کے تویارانے بھی ہیں تُرک صدر سے اورمیٹرو وغیرہ جیسے منصوبے بھی انھی سے متاثر ہوکر جاری کیے گئے ،اورنج لائن ٹرین بھی اسی محبت کاہی ثبوت ہے ۔ ان مذہبی وسیاسی راہنماؤں وکارکنوں کا اردگان کی فتح پر اظہارِ مسرت تو سمجھ میں آتاہے مگر اپنے راہنماؤں کا اردگان سے تقابل سمجھ سے بالاتر ہے ۔

ہمارے یہاں بھی سیاسی گہماگہمی کاباقاعدہ آغاز ہوچُکاہے اوراگلے ماہ انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔امیدوار انتخابی حلقوں میں گھرگھر جاکر اپنامدعابیان کررہے ہیں ۔اس لحاظ سے ہمیں چند باتوں پر غور کرناچاہیے کہ کیا ہم اورہمارے راہنما تُرک عوام وراہنما ؤں سے تقابل کے لائق بھی ہیں کہ نھیں ۔ تُرک کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق رائے دہندگان کی شرح ۸۷ فی صد رہی ۔اول تو ہماری قوم رائے دہی کے لیے گھروں سے نکلنے پر ہی تیار نھیں ہوتی ،رائے دہندگان کی شر ح کم ہوتی ہے اورووٹ کے اندراج کے حوالے سے ہی غفلت کرتے ہیں ۔پھر جواپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں انھیں اس سے غرض نھیں ہوتی کہ کون کیاکہہ رہاہے اورکس کاانتخابی منشور جمہور کے حق میں بہتر ہوگایاکون اپنے کہے کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گا۔ہم اس بات پر بھی غور نھیں کرتے کہ امیدواروں کایاجماعتوں کاماضی کیسا رہاہے بلکہ ہم اپنی پسند کی جماعت کویاپھر وڈیروں اوربرادریوں کے سرپنچوں کی ہدایت کے مطابق ہی حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ۔تُرک عوام سیاسی طور پر باشعور ہے اوروہ ان باتوں کوہی مدِ نظر رکھ کر اپنے حکمران منتخب کرتی ہے جنھیں ہم قطعی نظر اندازکرتے ہیں ۔ہمیں سوچناچاہیے کہ بار بار اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے کس حد تک عوام کی خدمت کی ہے اور کس بنیاد پر وہ اپنے آپ کو طیب اردگان کے ساتھ یامہاتیر محمد جیسے راہنماؤں کی صف میں لاکھڑاکرتے ہیں ۔

مذہبی سیاست دان یہ سمجھتے ہیں کہ اردگان نے محض اسلام پسندی کی وجہ سے عددی برتری حاصل کی ہے یاان کی مقبولیت کادارومدار مذہب پسندی پر ہے ۔ حالاں کہ اردگان واربکان کی علیحدگی کی وجہ ہی یہ تھی کہ اربکان مذہبی سیاست کے قائل تھے اور اردگان خدمت کی سیاست کے قائل ہیں ۔انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز استنبول کے مئیر کی حیثیت سے کیا اوراستنبول کواپنے عہدِ نظامت میں ترقی دلوائی اورعوام میں پذیرائی حاصل کی۔ اپنی اسی کارکردگی کی بنیاد پر ہی وہ تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ۲بار صدر ۔ جبکہ ناکام بغاوت میں عوام کاان کی محبت میں ٹینکوں اور فوجی دستوں کا مقابلہ کرنا بھی ان کی اسی خدمت کی سیاست کے سبب تھا نہ کہ ایک اسلام پسند راہنماہونے کے سبب ۔

تُرکی سے جہاں ہم عوام اورراہنمامحبت کرتے ہیں اوراردگان ہماری عقیدتوں کامحور ہے وہیں ہمیں ترکی کی سیاست وتُرکوں کے سیاسی شعور کابھی بغور جائزہ لینا چاہیے کہ عوام کس بنیاد پر اپنے حکمران چنتی ہے اور حکمران کس بنیاد پر عوام کے دل جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔زبانی جمع خرچ سے یا میٹر وبسیں چلانے سے ،اورنج لائن ٹرین چلانے سے ہی اقتدار ہاتھ نھیں آتا۔ نہ ہی اسلام کا نعرہ لگا کر میدان میں اترنے سے سرخروئی نصیب ہوتی ہے بلکہ عوام کی خدمت کرنے سے اور ترجیحات کومدِ نظررکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں سے عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں ۔ اقتدار کاراستہ بوٹوں یاہتھوڑے کے سہارے سے نھیں عوامی خدمت کے سہارے سے طے کیاجاتاہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے