پی ٹی آئی ۔ اندر کا کھیل

پشتو کا ایک مقولہ ہے کہ نادیدہ والدین کے گھر بچے کی پیدائش ہوئی تو چوم چوم کر اسے مار دیا گیا۔ ابھی انتخابات ہوئے ہیں اور نہ اکثریت ملی ہے لیکن پی ٹی آئی کے اندر وزارت اعلیٰ سے لے کر وزارت عظمیٰ تک کے لئے لڑائیاں زورپکڑگئی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک اور اسد قیصر کے مابین لڑائی زوروں پر ہے۔ اور تو اور مردان سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر عاطف خان جنہیں لوگ پختونخوا کے نعیم الحق کے نام سے یاد کرتے ہیں بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں لگ گئے ہیں۔ سب ایسے لوگوں کے لئے ٹکٹ کے حصول میں مگن رہے جو ان کے گروپ کے بندے ہیں اور ان کو فیل کرانے میں لگے ہیں جو مخالف وزیراعلیٰ کے گروپ کا سمجھا جاتا ہے۔

یہی نہیں پرویز خٹک نے سابق گورنر خیبر پختونخوا اورمقبول ترین امیدوار جنرل(ر) افتخار حسین شاہ کو اس لئے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہ دیا کہ وہ وزارت اعلیٰ کے متوقع امیدوار ہوسکتے تھے۔ چنانچہ اب جنرل صاحب پی ٹی آئی چھوڑ کر آزاد انتخاب لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ اب کی بار پنجاب میں تو پی ٹی آئی جیت سکتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں امکان اس لئے نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی آنکھوں سے پی ٹی آئی کی حکمرانی کو دیکھ بلکہ بھگت چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے وہ سابق اور زبان دراز ممبران قومی اسمبلی جو ٹی وی پر جھوٹ بول کر پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو پختونخوا حکومت کے بارے میں گمراہ کرتے رہے آج اپنے حلقوں میں عوام کا سامنا بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں عاطف خان ہوں کہ مراد سعید ، علی محمد خان ہوں کہ شہریار آفریدی سب اپنے اپنے گائوں کایونین کونسل الیکشن ہار چکے اور تبھی تو علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو اب کی بار ٹکٹ بھی نہیں دیا جارہا تھا لیکن جب کوئی دوسرا امیدوار نہیں ملا تو مجبوراً ان کو ٹکٹ دے دیا گیا۔

سندھ اور بلوچستان میں تو چونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کا کوئی امکان نہیں اس لئے وہاں آپس کی جنگ نہیں لیکن تماشہ یہ ہے کہ پنجاب میں ابھی سے یہ جنگ گرم ہوگئی ہے۔ وزارت اعلیٰ کے نصف درجن سے زائدامیدوار سامنے آگئے ہیں جن میں سرفہرست شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری ہیں۔ دونوں ہر جگہ ایک دوسرے کی شکایتیں کرنے میں سرگرم عمل ہیں حالانکہ جہانگیر ترین نے وہاں کی وزارت اعلیٰ کے لئے اپنے ایک اور بندے کو تیارکر رکھا ہے۔ ابھی نہ جانے انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اور نہ جانے پی ٹی آئی جیتتی ہے یا نہیں لیکن یہ تینوں گروپ ابھی سے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔

سب سے دلچسپ تماشہ وزارت عظمیٰ کا ہے۔ عمران خان صاحب خود اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھ بیٹھے ہیں۔ کام لینے کے لئے ان کو بتایا بھی جارہا ہے کہ آپ ہمارے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ ان کی جماعت کے کارکن بھی ان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خلوتوں میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمرلوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ اصل امیدوار وہ ہیں۔

وہ یہ خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں کہ پہلے تو عمران خان اس وقت تک نااہل ہوجائیں گے اور اگر نااہل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی اور آزاد امیدواروں کے ساتھ یہ طے ہوا ہے کہ دیگر جماعتیں عمران خان صاحب کو بطور وزیراعظم تسلیم نہیں کریں گی اور ان کی طرف سے یہ شرط رکھی جائے گی کہ کسی تیسرے بندے کو لے آئیں۔ یوں قرعہ فال ان کے نام نکلے گا۔ چونکہ جہانگیر ترین کے علاوہ ایمپائروں سے رابطہ بھی زیادہ تر ان دونوں کا ہوتا ہے اس لئے وہ وہاں زیادہ تابعدار اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے باپ دادا کے دور سے یہی کام کیا ہوا ہے اور درپردہ سازشوں اور جوڑ توڑ میں بہت تیز ہیں ، اس لئے بظاہر ان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن اسد عمر بھی بڑی خاموشی کے ساتھ اپنے والد جنرل (ر) محمد عمر (سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک اہم کردار) کے نام اور روابط کو استعمال کررہا ہے۔

ان کی ہوشیاری کا یہ عالم ہے کہ خود پیچھے رہ کر انہوں نے جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی کو گرم کررکھا ہے اور وہ ترین کے ذریعے شاہ محمود قریشی کو آئوٹ کرکے اپنے لئے میدان صاف کرنا چاہتے ہیں۔ اسد عمر کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ ان کے لئے ان کے بھائی زبیر عمر جو میاں نوازشریف کے دست راست ہیںاور بطور گورنر سندھ اہم حلقوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، بھی بڑی مہارت مگر خاموشی کے ساتھ لابنگ کررہے ہیں۔

تاہم اس وقت جو لڑائی سب سے زیادہ پی ٹی آئی کو متاثر کررہی ہے وہ جہانگیر ترین اورشاہ محمود قریشی کی لڑائی ہے اور جو کسی حد تک سامنے بھی آگئی ہے۔ یہ دونوں حضرات کئی حوالوں سے ہم پلہ ہیں۔

دونوں ایک علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ایک ہی ریٹائرڈ جنرل صاحب کے ذریعے اور گارنٹی سے پی ٹی آئی میں آئے تھے۔ دونوں ماضی میں وفاقی وزیر رہ چکے ہیں اور اب دونوں کی خواہش وزارت سے بڑھ کر کوئی منصب ہے۔ دونوں کے درمیان عمران خان کا نمبرٹو بننے کی دوڑ لگی تھی جبکہ دونوں کے پاس بے تحاشہ دولت ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی کنجوس اور جہانگیرترین انوسٹمنٹ کی نیت سے سے سہی لیکن کھل کر دولت لٹانے والے ہیں۔ اس لئے بازی جہانگیرترین لے گئے اور وہ عمران خان صاحب کے بعد دوسرے بااختیار فرد بن گئے۔

گزشتہ برسوں کے دوران جتنے سرمایہ دار اور جاگیر دار پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، ان میں نوے فی صد سے زیادہ ان کے ذریعے آئے اور وہ گویا ان کے گروپ کے لوگ ہیں۔

یوں شاہ محمود قریشی کا پتا انہوںنے تقریباً کاٹ دیا تھا لیکن ترین صاحب کو سپریم کورٹ سے نااہلی نے خراب کردیا۔ سپریم کورٹ سے نااہلی کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہے کہ عمران خان کو بچانے کے لئے ان کی قربانی دی گئی۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے بھی کردار ادا کیا۔ البتہ وہ زیادہ دکھی خود خان صاحب سے ہیں لیکن مجبوراً اب اس لئے اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ اس صورت میں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مخالفین کاکام اور بھی آسان ہوجائے گا۔

دراصل جہانگیر ترین کے خلاف عدالتی فیصلے سے ایک ماہ قبل عمران خان صاحب نے اپنے لئے متبادل جہاز کا انتظام کسی اور چینل سے کرنا شروع کیا تھا جس کا جہانگیر ترین کوبھی علم ہوگیا۔ اس سے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ ان کی نااہلی کا ان کے لیڈر اور دوست کو بھی پہلے سے اندازہ تھا۔ دوسری طرف عدالتی فیصلے کے بعد اب عمران خان صاحب نے ان کے جہاز کا استعمال بھی بہت کم کردیا ہے۔

وہ زیادہ تر اب کسی اور کے جہاز استعمال کرتے ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی کو جتنا پہلے انہوں نے نظرانداز کرلیا تھا ، اتنا ہی اب دوبارہ اِن کردیاہے۔ شاید یہ بھی دکھ کے اظہار کا ایک طریقہ تھا کہ ترین صاحب نے اپنے بیٹے سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ واپس کروا دیا۔ تاہم ترین صاحب کی سرمایہ کاری اتنی زیادہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو کسی صورت چھوڑ نہیں سکتے۔ ان کے دل میں عمران خان کی طرف سے بے وفائی کا قلق ضرور ہے لیکن وہ اسے ان پر یا دوسرے لوگوں پر کسی صورت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔

اب تماشہ یہ ہے کہ بظاہر جہانگیرترین صاحب نااہلی کے بعد دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں اور اسی لئے عمران خان صاحب نے بھی ان پر انحصار کرنا کم کردیا ہے لیکن دوسری طرف جو امیدوار اور پارٹی عہدیدار میدان میں ہیں، ان کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو جہانگیرترین کے ذریعے آئے ہیں۔ یوں ترین صاحب ایسا گیم کھیلنا چاہتے ہیں کہ پارٹی کامیاب بھی ہو لیکن اس کی شکل ایسی ہو کہ ان کے مخالفین یعنی شاہ محمود قریشی اور اسدعمر کا کھیل کامیاب نہ ہو۔ جبکہ قریشی صاحب اور اسد عمر کی خواہش ہے کہ پارٹی جیت جائے لیکن جیت ایسی ہو کہ اس میں خودخان صاحب کا وزیراعظم بننا ممکن نہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے