چند حماقتیں

حماقتوں کی ہزاروں قسمیں ہیں اور حماقتوں کے مرتکب صرف افراد ہی نہیں، اقوام بھی ہوتی ہیں مثلاً الیکشن ہی دیکھ لیں۔ اگر کوئی قوم بدترین لوگوں کو منتخب کر کے بہترین مستقبل کے خواب دیکھے تو آپ اس خانہ خراب کو کیا کہیں گے؟ ویسے اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر کہ پاکستانی پہلی بار شاندار قسم کے ’’ردعمل‘‘ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پانچ چھ سیاسی پھنے خانوں اور مگر مچھوں کو تو میں خود ٹی سکرینوں پر ووٹرز کے ہاتھوں سرعام ذلیل و رسوا ہوتے دیکھ چکا ہوں۔

میری دعا ہے اور استدعا بھی کہ یہ وبا ہر طرف پھیل جائے کیونکہ اچھے امیدوار تو آسمانوں سے اتریں گے نہیں تو کیوں نہ برے امیدواروں کو کھینچ کھانچ کر ’’اچھا‘‘ کر لیا جائے جیسے دھوبی گندے کپڑوں کو دھوبی گھاٹ میں پٹخ پٹخ کر صاف کیا کرتے تھے اور آج کل میلے کچیلے کپڑے مشین میں ڈال کر انہیں زور دار گھماٹیاں دے کر دھویا اور اجلا کیا جاتا ہے تو ان سیاستدانوں کی صفائی دھلائی کیوں نہیں ہو سکتی؟اس حماقت کا بھی جواب نہیں کہ کوئی شخص یا گروہ اس ارادے یا نیت سے کوئی عیب یا برا کام کرے کہ چند مرتبہ یہ کار بد کرنے کے بعد اس سے تائب ہو کر چھوڑ دوں گا کیونکہ عموماً کیا،99فیصد ایسا ہوتا نہیں ورنہ شاعر رضاکارانہ طور پر یہ اعتراف کبھی نہ کرتا کہ….. ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘سگریٹ و شراب نوشی تو یونہی بدنام ہیں کہ ان کا نقصان بیحد محدود اور صرف کرنے والے کو ہوتا ہے جبکہ خوشامد، رشوت، کک بیک، کمیشن خوری کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ’’چھٹتی نہیں ہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘نام کیا لینا میں خود ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جن کی پہلی نسل کو عزت ملی اور پہلی نسل نے ہی اسے اپنے ہاتھوں سربازار لٹا دیا تو کسیجینیئس نے کہا کہ اس گھرانے نے گھر دولت سے اس طرح بھر لیا کہ اب پورے گھر میں عزت رکھنے کی جگہ نہیں بچی۔

بھلا کون شریف آدمی یہ چاہےگا کہ جائیدادیں تو اس کی دنیا بھر میں ہوں لیکن عزت کہیں بھی نہ ہو اور وہ مقدس ترین مقامات پر بھی جائے تو رسوائی اس کا پیچھا نہ چھوڑے! یہ سب نتیجہ ہے اس بات کا کہ آدمی اس نیت سے حرام کھائے کہ دوچار بار کھا کر چھوڑ دوں گا لیکن پھر ہوتا یہ ہے کہ’’چھٹتا نہیں ہے منہ سے کافر لگا ہوا‘‘حماقت یہ بھی خاصی دلچسپ ہے کہ آدمی اپنا کوئی راز کسی اور کے ساتھ شیئر کرنے کے بعد یہ توقع رکھے کہ وہ ہمیشہ راز رہے گا کیونکہ اگر کوئی چوہدری نثار کی طرح ناراض ہو جائے تو راز، راز کیسے رہ سکتا ہے۔اک اور انتہائی اہم اور قابل ذکر حماقت یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کی خدمت سے تو جی چرائے یا پوری طرح حق ادا نہ کرے لیکن اپنی اولاد سے یہ امید رکھے کہ وہ بڑھاپے میں اس کی سیوا کرے گی کیونکہ قدرت کے بنیادی ترین اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان جو کچھ کاشت کرتا ہے، وہی کچھ اسے کاٹنا بھی پڑتا ہے۔

طاقت، تندرستی، صحت، دولت، شہرت اور حسن بھی عجیب و غریب دھوکے اور سراب ہیں۔ میں نے بچپن میں منوں ویٹ اٹھانے والے دتو پہلوان کو اس حال میں دیکھا کہ اس میں پلک جھپکنے کی سکت بھی نہیں تھی۔ میں نے وحید مراد جیسے سپر سٹار کی مقبولیت کے بعد اسے اس حال میں بھی دیکھا کہ وہ مین مارکیٹ گلبرگ میں کھڑا ہے اور کوئی اسے دیکھنے تک کا روا دار بھی نہیں۔ میں نے اپنے وقت کے مقبول ترین ، ہینڈسم ترین کرکٹر فضل محمود کو روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے باہر چھڑی کی ٹیک لگائے سپورٹس ایڈیٹر سپرا مرحوم کا انتظار کرتے دیکھا کہ راہگیروں میں سے کسی کے پاس اسے پہچاننے کا وقت نہیں تھا۔

اور تو اور قیام پاکستان سے پہلے کے گیزیٹیئرز اٹھا کر دیکھیں کہ لاہور کے نامور، معزز، شرفا، معتبر اور متمول ترین لوگ کون تھے؟ آج ان کے نام و نشان بھی موجود نہیں جبکہ اسی برس پہلے کے عسرت زدہ، بے نام و نشان آج اس شہر کی پہچان ہیں سو ان سب چیزوں پر فخر، مان، اتراہٹ بھی پرلے درجہ کی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک آخری حماقت کا ذکر کر کے اجازت چاہوں گا اور وہ یہ کہ خود تبدیل ہوئے بغیر فقط انتخابات کی ڈرل کے بعد یہ خواب دیکھنا کہ کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی…..

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے