اور اب پیش خدمت ہے قائداعظم کی ڈائری

ہمارے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحب کو ملک میں صدارتی طرز حکومت نافذ کروانے کا بہت شوق ہے، ان کا خیال ہے کہ ملک میں جاگیردارانہ نظام قائم ہے، یہ لوگ جاہل گنوار عوام کو بدھو بنا کر ووٹ لیتے ہیں، پارلیمان میں آ بیٹھتے ہیں، انہی میں سے کچھ وزیر بن جاتے ہیں، ایک وزیر اعظم کی ٹوپی پہن لیتا ہے، گنوار لوگوں کا یہ کرپٹ ٹولہ قومی اداروں کے سربراہ تعینات کرتا ہے، ان لوگوں کو سائنس کا کوئی علم ہوتا ہے نہ ٹیکنالوجی کا، معیشت کی کوئی سدھ بدھ ہوتی ہے نہ گورننس کی کوئی سمجھ، انہیں بس مال بنانے سے دلچسپی ہوتی ہے، ان لوگوں نے آکٹوپس کی طر ح ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، ان سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں امریکہ، فرانس کی طرز پر صدارتی نظام حکومت قائم کیا جائے۔

نظام کو بدلنے کا طریقہ بھی ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ بصیرت افروز افراد پر مشتمل ایک کونسل ہو جو صدارت کے امیدوار کی چھانٹی کرے تاکہ کوئی سڑک چھاپ صدر نہ بن سکے، ایسی ہی تطہیر پارلیمان کے ارکان کی ہو، اس عمل کے بعد جو صالح، ایماندار اور پروفیشنل لوگ حکومت میں آئیں گے وہ ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ اور ہاں جس کسی کو اندیشہ ہے کہ قائد اعظم کی روح پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹنے پر ناخوش ہوگی تو اُس کا بھی حل ڈاکٹر صاحب نے اپنی زنبیل سے نکال کر پیش کیا ہے، 9مئی کو انہی صفحات پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:’’قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947میں اپنے ہاتھ سے اپنی ڈائری میں نوٹ لکھا تھا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتا اور صدارتی نظام جمہوریت ہی زیادہ بہتر ہے۔ اس پر عمل کیا جائے۔ اس ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹ کا عکس جامعہ آکسفورڈ پریس کی کتاب ’’The Jinnah Anthology‘‘ میں صفحہ نمبر 81پر شائع کیا گیا۔اس کتاب کے مدیر شریف مجاہداور لیاقت مرچنٹ ہیں۔‘‘

آج صرف قائد اعظم کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹ کی بات ہو جائے۔ The Jinnah Anthology کتاب میرے سامنے ہے۔ پہلی غلطی ڈاکٹر صاحب سے یہ ہوئی کہ انہوں نے کتاب کا صفحہ نمبر غلط لکھا، اس نوٹ کا عکس صفحہ نمبر 81پر نہیں صفحہ نمبر 63پر ہے، خیر یہ کوئی ایسی بات نہیں، ممکن ہے بتانے والے کی یادداشت کمزور ہو، ڈاکٹر صاحب کو چاہئے تھا ایک نظر کتاب پر خود بھی ڈال لیتے، تحقیق کا تقاضا تو یہی تھا آخر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ یہ نوٹ اس کتاب میں شریف الدین پیرزادہ کے ایک مضمون میں شامل ہے، اس مبینہ نوٹ کا ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے غلط کیا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے اور مان لیتے ہیں کہ قائد اعظم کا یہی مطلب تھا۔

شریف الدین پیرزادہ کے مطابق پہلی مرتبہ یہ نوٹ جنرل ضیا الحق نے ’’unsealed‘‘کیا، اس کی کاپیاں کروائیں اور یوں ایک کاپی انہیں بھی مل گئی۔ جو بات انہوں نے نہیں لکھی وہ یہ تھی کہ اُس وقت دراصل جنرل صاحب ریفرنڈم کے ذریعے صدر بننے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس لئے قائد اعظم کا یہ نوٹ دریافت کیا گیا۔ ہمارے ڈاکٹر صاحب ماشاء اللہ اعلیٰ پائے کے محقق ہیں اور غالباً کیمسٹری ان کا شعبہ ہے، میری بدقسمتی کہ میں کیمسٹری میں اُن کی کسی نئی تحقیق، ایجاد یا دریافت سے واقف نہیں اور رہی بات سیاسیات کی تو اس میں ڈاکٹر صاحب کا وہی مقام ہے جو انجینئرنگ کے شعبے میں آغا وقار کا (پانی سے گاڑی چلانے والے۔ ہم محسنوں کو کتنی جلدی بھول جاتے ہیں)۔ قائد اعظم جیسی شخصیت کے نظریات جاننے کے لئے ضروری تھا کہ ڈاکٹر صاحب قائد کی تمام تقاریر، ان کی ارشادات اور افکار کا جائزہ لیتے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتے۔

یہ ورق جس کا حوالہ انہوں نے دیا ہے، کس ڈائری کا ہے، کیا قائد اعظم نے کوئی ڈائری تحریر کی، اگر کی تو وہ کہاں ہے؟ ہر شخص کسی موضوع پر رائے بنانے کے لئے اپنے نوٹس بناتا ہے، اس میں وہ باتیں بھی نوٹ کرتا جاتا ہے جو اس کے اپنے نظریئے کے برخلاف ہوتی ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ جو لکھ رہا ہے وہی اس کا حتمی نظریہ بھی ہے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر لکھی یا کہی ہوئی بات کو سنجیدہ محقق مستند نہیں مانتے۔ ڈاکٹر صاحب سے نے جنرل ضیا کی پیروی میں قائد سے جو نوٹ منسوب کیا ہے اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ یہ ایک سادہ کاغذ پر لکھے گئے چند جملے ہیں جنہیں قائد نے اپنی کسی تقریر میں کبھی استعمال کیا اور نہ ہی ان خیالات کا کبھی اظہار۔

اس پورے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں آئین ساز اسمبلی وجود میں آ چکی تھی، 11اگست 1947کو اُس آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے وہ شہرہ آفاق تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لئے آزاد ہیں۔ قائد اعظم کے پاس صدارتی نظام حکومت کی بات کرنے کا اگر کوئی موقع تھا تو وہ یہ تھا نہ کہ 12اگست 1983کا جنرل ضیا کا بلایا گیا مجلس شوریٰ کا اجلاس جس میں وہ مبینہ نوٹ پیش کیا گیا۔ جس کتاب کا حوالہ ڈاکٹر صاحب نے دیا شاید وہ کتاب خود ڈاکٹر صاحب نے بھی پوری نہیں پڑھی، اسی کتاب کے صفحہ نمبر 137پر قائد اعظم کا 26فروری 1948کو امریکی میڈیا کو دیا گیا ایک بیان بھی شامل ہے:

[pullquote]”The Constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be, but I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam……it has taught equality of man, justice and fairplay to everybody…….in any case, Pakistan is not going to be a theocratic State to be rules by priests with a divine mission. We have many non Muslims—-Hindus, Christians, and Parsis—-but they are all Pakistanis۔۔۔۔۔۔”[/pullquote]

یہ بیان اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، ایک ایسا پاکستان جہاں ہر کسی کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور ایسا پاکستان جہاں ملائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور جہاں ہر شخص کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب جو پاکستان چاہتے ہیں اس میں ان پڑھ لوگوں کے پاس ووٹ کا کوئی حق نہیں یا کم از کم ان کا ووٹ برابر نہیں (یہ بات وہ لکھ چکے ہیں)، ان کے پاکستان میں نام نہاد بصیرت افروز افراد پر مشتمل ایک کونسل ہوگی جس کا آج کی جمہوریت میں کوئی تصور نہیں (ایرانی ماڈل کو دنیا جمہوریت نہیں مانتی)۔

قائد اعظم تمام عمر پارلیمانی جمہوریت کے داعی رہے، انتخابات میں جاگیرداروں کا مقابلہ کیا، آپ کی درجنوں تقاریر اور بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ پکے جمہوریت پسند تھے اور ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں ہر شخص کو برابری سے جینے کا حق ہو اور کوئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر ان سے یہ حق نہ چھین سکے۔ قائد اعظم 11ستمبر 1948تک زندہ رہے، اس دوران آئین ساز اسمبلی بھی کام کرتی رہی، خود قائد بھی سوسائٹی کے ہر طبقے، ریاست کے ہر ادارے اور ملک کے نمائندہ شہریوں، عوام اور میڈیا سے خطاب کرتے رہے، تقاریر کرتے رہے اور بیانات دیتے رہے، کسی ایک جگہ بھی قائد نے نہیں کہا کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہیے یا کوئی ایسی مخصوص جمہوریت ہو جس میں ان پڑھ کو ووٹ سے محروم رکھا جائے اور ڈکٹیٹر کی چھتری تلے جمع ہونے والوں کو بصیرت افروز مان کر حکمران مسلط کر دیا جائے۔ قائد اعظم جیسا ڈیموکریٹ شاید ہی کوئی دوجا ہو، ڈاکٹر صاحب براہ کرم اپنی تاریخ درست کر لیں،قائد کے نام پر قوم کو گمراہ کرنے سے پرہیز فرمائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے