یوسف حسن

[pullquote]اک بے انت سمندر میری منزل اے دریا
لیکن خاک اڑائیں تیرے ساحل اے دریا
ہم بھی پربت کاٹتے ہیں اور مٹی چاٹتے ہیں
ہم بھی تیرے کنبے میں ہیں شامل اے دریا
سینوں اور زمینوں کو نہ اگر سیراب کریں
تیرا میرا ہونا ہے لاحاصل اے دریا
تیری لہریں رہ کر بھی ہم اپنی لہریں ہیں
مٹ جاتے ہیں اپنے آپ سے غافل اے دریا
کتنی عمروں سے میں تیرے ساتھ سفر میں ہوں
کھول اپنے اسرار کبھی تو اے دل‘ اے دریا[/pullquote]

یہ اس غزل کے چند اشعار ہیں جو مرحوم یوسف حسن کے زیر ترتیب شعری مجموعے سے مجھے برادر عزیز غافر شہزاد کی معرفت ملی ہے اور کل سے میں ایک بار پھر اس حیرت کدے میں گم ہوں کہ وہ کون سا پراسرار طریقہ ہے جس کے ذریعے فنا کا احساس جانے والوں بالخصوص اہل قلم کی تحریروں میں ان کو ایک سامنے کھڑی حقیقت کی طرح نظر آنے لگتا ہے۔ یوسف حسن کے بارے میں سوشل میڈیا پر جو ایک بات بار بار دہرائی جا رہی ہے وہ اس کا ترقی پسند تحریک‘ کمیونزم اور غریب اور بے سہارا مخلوق سے گہری جذباتی اور نظریاتی وابستگی ہے۔

جس کے ساتھ وہ ساری عمر بندھا رہا اس کا تعلق جہلم کے علاقے سے تھا اور میری اس سے پچاس سالہ رفاقت کی بنیاد ادب کا وہ رشتہ تھا جس کا آغاز احمد ندیم قاسمی مرحوم کے ادبی رسالے ’’فنون‘‘ کے دفتر اور صفحات سے ہوا اور جو براہ راست ملاقاتوں کی کمی کے باوجود ساری عمر نہ صرف قائم رہا بلکہ اس کی دو طرفہ گرمجوشی میں بھی کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ برصغیر کی ادبی فضا میں کمیونزم اور عوامی ادب کا اثر یوں تو انقلاب روس کے کچھ عرصہ بعد ہی نظر آنا شروع ہو گیا تھا مگر اس کا باقاعدہ آغاز 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے قیام کے ساتھ ہوا جس کے کچھ عرصہ بعد سیاسی میدان میں کمیونسٹ نظریات کی حامل پارٹیوں کا دور شروع ہوا۔

جن کا زیادہ زور اگرچہ تقسیم سے قبل کے متحدہ بنگال اور جنوبی ہندوستان میں تھا مگر عمومی طور پر سارا برصغیر اس کی لپیٹ میں آنے لگا تھا کہ دو عظیم جنگوں اور ہمسایہ ملک چین میں انقلابی لہر کے فروغ اور سفر‘ کتابوں اور معلومات کی فراہمی میں آسانی اور پھیلاؤ کی وجہ سے دنیا سمٹتی اور برٹش راج کمزور پڑتا جا رہا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کی نئی سیاسی اور نظریاتی ساخت میں تبدیلی کے باعث کمیونسٹ نظریات اور اس سے متعلق تحریکوں اور جماعتوں کو مختلف طرح کی رکاوٹوں اور پابندیوں سے گزرنا پڑا جس کے نتیجے میں نہ صرف ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم شکست و ریخت کا شکار ہوئی بلکہ پاکستان کی حد تک کمیونسٹ پارٹی کا بھی خاتمہ ہو گیا کہ یہاں ابھی یہ زیادہ مقبول اور مضبوط ہو ہی نہیں پائی تھی، البتہ بھارت کے کئی علاقوں میں یہ نہ صرف بہت حد تک قائم رہی بلکہ بعض ریاستوں میں یہ حکومتی عمل میں بھی شامل رہی اور آج بھی ہے۔

البتہ ادبی حوالے سے دونوں جگہ پر ترقی پسند تحریک اپنے تسلسل کے باوجود کسی باقاعدہ تنظیم سے محروم ہو گئی۔ پچاس کی دہائی میں راولپنڈی سازش کیس اور کمیونسٹ جماعت پر باقاعدہ پابندی کے باعث ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم بھی مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر بند ہو گئی اس کے آخری سیکریٹری جنرل ہم سب کے ادبی گرو احمد ندیم قاسمی تھے۔

یہ تھی وہ فضا جس میں یوسف حسن مرحوم نے آنکھ کھولی، کمیونزم فکر سے اپنی فطری جذباتی و نظریاتی ہم آہنگی اور عوام دوستی کے باعث اس نے نہ صرف روس اور چین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لکھے جانے والے اشتراکی ادب کا بھرپور مطالعہ کیا بلکہ عملی طور پر بھی مزدور تنظیموں اور سیاسی انقلاب سے وابستہ تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا، اس کی شاعری ہو یا نثر یا ادبی محفلوں میں کی جانے والی گفتگو اس نے ہر جگہ اپنی اس روش کو قائم رکھا، وہ ملنے ملانے میں ایک بہت محبتی‘ سادہ اور ملنسار آدمی تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے نظریات کے ضمن میں بہت سخت گیر اور بعض صورتوں میں تلخ گفتار بھی ہو جاتا تھا اور یوں وہ ’’نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو‘‘ کی ایک قدرے مختلف مگر چلتی پھرتی تصویر تھا۔

مجھے اس کی خرابی صحت کا علم اور اندازہ تو تھا مگر 23جون کو عزیز دوست خالد احمد مرحوم کے نام پر قائم کردہ ادارہ بیاض کے ادبی ایوارڈ کے موقع پر اختر عثمان نے اپنے شعری مجموعے پر ایوارڈ لیتے ہوئے جب اسے اپنی بیمار والدہ اور بستر مرگ پر پڑے ہوئے سینئر دوست یوسف حسن کے نام کیا تو میں چونکا کیونکہ ہم عام طور پر کسی لاعلاج قرار دیے گئے مریض دوست یا عزیز کے بارے میں بھی ’’بستر مرگ‘‘ کی ترکیب کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ تقریب کے بعد بھی ہجوم کی وجہ سے اختر عثمان سے تو بات نہ ہو سکی مگر احباب سے پتہ چلا کہ یوسف کی طبیعت واقعی بہت خراب ہے اور ماضی قریب کے جہلم سے متعلق دو اہم مرحوم شعرا تنویر سپرا اور اقبال کوثر کی طرح وہ بھی اب ’’برسرراہ‘‘ ہے۔ ابھی اس سے رابطے اور ملاقات کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ خبر بھی آ گئی جس سے کسی کو مفر نہیں۔
سو آخر میں اسے یاد اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہوئے اس کے چند شعر کہ اب اس نے ابد آباد تک انھی میں زندہ رہنا ہے کہ فن کار کا فن اسے اس کی جسمانی عدم موجودگی کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے.

[pullquote]سب کی نظر میں آ جاتا ہے
چاند کسی بھی چھت پر نکلے
ہر میلے کی رونق تھے ہم
ہر میلے سے لٹ کر نکلے
کیا کہیں اُس کو جو دھجی بھر زمیں بخشی گئی
اور سر پر چیتھڑا سا آسماں رکھا گیا
اس کنارے کوئی اپنا منتظر ہو یا نہ ہو
یہ بھی کیا کم ہے کہ ہم کو خوش گماں رکھا گیا
لوگ تو لوگ عقیدے بھی پگھل جاتے ہیں
تم نے دیکھی ہی نہیں گرمئی بازار ابھی
کوئی منزل بھی نہیں آخری منزل یوسف
منتظر اپنے ہی ہیں ہم کہیں اس پار ابھی[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے