گئو ماتا کے پرستار

آج میں نے لاہور شہر پر طائرانہ نظر ڈالی اور اندازہ کیا کہ جب انتخابات کے بعد اس شہر کی صورتحال واضح ہو گی‘ تو اس میں صرف چند بڑی کوٹھیاں ہوں گی‘ جن میں چند بڑے خاندان رہتے ہوں گے۔ اس کے بعد جب خاندان بڑے ہو جائیں گے‘ تو کوٹھیاں کم پڑ جائیں گی۔ کسی کے پاس دو کمرے‘ کسی کے پاس ایک کمرہ اور کسی کے پاس تین کمروں کا پورشن ہو گا۔ کوٹھی کی جو باقی تقسیم ہو گی‘ اس میں چار پانچ کمروں کے‘ چار پانچ بڑے مکان نکلیں گے۔

اس کوٹھی کے اندر سے حکمران قبیلے‘ اپنے سگے رشتے داروں کو بڑی کوٹھیاں نکال کر دیں گے‘ تو ان میں بڑے گھر والے چند ایک ہی ہوں گے‘ درمیانے گھر والے کچھ بڑھ جائیں گے اور ایک دو کمروں کے فلیٹ اور صحن کے لئے تھوڑی بہت جگہ حاصل کرنے والے سارے مل کر‘ جب جلسۂ عام کرنا چاہیں گے‘ تو منتظمین کو کسی ایک کی محتاجی نہیں رہے گی‘ بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کے سارے خاندان‘ جو دُور کے رشتے دار ہوں گے‘ مل جائیں گے۔ ایک نہیں‘ چار پانچ کوٹھیوں کی آبادی‘ ایک ہی خاندان پر مشتمل ہو گی اور ان کے آگے مزید درجنوں خاندان ہوں گے۔ دوسرے درجے پر آنے والے پندرہ بیس افراد پر مشتمل خاندان ہوں گے اور اس کے بعد کوارٹروں میں بسے ہوئے خاندان بعد از دوپہر چار بجے اپنے علیحدہ علیحدہ جلسے منعقد کیا کریں گے۔

ایک نیا مسئلہ جو پیدا ہو گا‘ وہ قدیم لاہوریوں پر مشتمل شہریوں کی آبادی ہو گی۔ ان شہریوں میں بھی زیادہ تر لوگ امرتسر‘ جالندھر اور ہوشیار پور کے ہوں گے۔ ان گھروں میں گائیں‘ بھینسیں‘ بکریاں اور گھوڑے بندھے ہوں گے۔ ایسی آبادیاں بہت چھوٹے علاقوں میں رہ سکیں گی۔ چند آبادیاں تو (ن) والوں کی ہوں گی۔ کچھ عرصے تک (ن) کی حامی پارٹیوں میں جلسے جاری رہیں گے‘ مگر اس کے بعد امرتسری خاندانوں کی امتیازی آبادیاں نمایاں ہو جائیں گی۔ جلد ہی امرتسر اور لائل پور سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے لیڈر ان آبادیوں پر قابض ہو جائیں گے۔ بہترین‘ عمدہ اور امتیازی رتبہ رکھنے والے امرتسر اور جاتی امرا کے لوگ‘ خاص بڑے بڑے محلات میں بسائے جائیں گے۔ ان میں دو بڑے خاندان ہوں گے؛ ایک خاندانِ نوازیاں اور دوسرا خاندانِ شہبازیاں ہو گا۔ اس ”علاقہ باورچیاں‘‘ میں درجہ بدرجہ خاص باورچی خانے تیار کئے جائیں گے۔

اول درجے کا واحد باورچی خانہ امتیازی حیثیت کا حامل ہو گا۔ اس خاندان کے سربراہ بانیٔ اول کہلائیں گے۔ ان کی خصوصی نشست گاہ سب سے الگ ہو گی۔ ان کے ملاقاتی بھی خاص ہوں گے‘ جیسے ترک خاندان کے سربراہِ اول کے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ خصوصی امتیاز حاصل ہو گا کہ بڑی سڑک سے لے کر اندر کی کچی راہوں تک‘ دونوں شاہی سواریاں‘ چست اور چاک و چوبند جواں سال گھوڑوں کی رقص نما رفتار کے ساتھ معزز مہمانوں کو سیر کرایا کریں گی۔ ان راستوں پر شاہی خاندان کا بچہ گھڑ سواری کرے گا۔ اگر کوئی شاہی بچہ گھوڑے سے کچے راستے پر گر کے چلنے لگے گا‘ تو اسے فوری طور پر دنیا کی قیمتی ترین کار میں بٹھا کے‘ شاہی قلعے کی راہوں پر سیر کے لئے بھیج دیا جائے گا اور شہزادے اس وقت تک شاہی قدموں سے پیدا ہونے والی راستوں کی مہک سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے‘ جب تک واپسی کے دروازے چشم براہ رہیں گے۔

شاہی خاندان کو تین فرزندگان نے اپنی پیدائش سے نوازا۔ شہزادۂ اوّل کی قسمت میں بے شمار فتوحات لکھی تھیں۔ سب سے پہلے بادشاہ سلامت نے خود جاتی امرا کو قدم بوسی کا اعزاز عطا فرمایا۔ جب لوہا کوٹنے سے فارغ ہونے کے بعد‘ راستوں میں بچھائے گئے پھولوں پر‘ انہوں نے شاہی قدم رنجا فرمائے‘ تو پورے لاہور میں شہزادۂ اوّل کے نازک پیر پھولوں سے بھر گئے۔ جب شاہی سواری گزر گئی‘ تو رعایا کے بچوں اور جوانوں‘ سب نے ایک ایک پھول اٹھا کر شہزادۂ اول کے قدموں کو چومنے والے پھولوں کو‘ بوسے دے دے کر ٹوکری میں رکھ لئے۔ اور جب وہ جمعہ کی نماز پڑھنے شہر کی گلیوں سے گزرتے‘ تو حسین دوشیزائیں ان پر والہانہ عطر چھڑکتیں۔ جس دن ملکۂ معظمہ کی طبیعت قدرے ناساز ہوتی‘ تو سارے پنجاب کی پوری آبادی درود شریف پڑھ کے دعائیں کرنے لگتی۔ ایک بار تختِ دلی کے فرمانروا لاہور میں ہمارے بادشاہ سلامت کی خدمت میں عرض گزارنے آئے‘ تو انہیں شاہی شان و شوکت کے ساتھ قلعہ لاہور میں قدم رنجا فرمانے کا اعزاز عطا فرمایا گیا۔ انہوں نے اپنی گئو ماتا کا گوبر بطورِ تبرک اپنے ہاتھوں سے ماتھے پر لگایا اور چل دئیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے