خفیہ ادارے کیلئے کام کرنے والے گمشدہ سائنسدان اور ان کی اہلیہ کی تلاش کا آغاز

اسلام آباد: وزارتِ دفاع کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کو تحریری طور آگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی سائنسدان اور ان کی اہلیہ کی گمشدگی کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سائنسدان اور ان کی اہلیہ کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے لاپتہ ہوئے تقریباً 6 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کو جمع کرائے گئے تحریری جواب میں وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) کے جنرل مینیجر نوزیر حسن اور ان کی اہلیہ امیمہ حسن انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کی تحویل میں نہیں اور نہ ہی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی حراست میں ہیں۔

وزارتِ دفاع کے مطابق اس حوالے سے ایم آئی ڈائریکٹریٹ، جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے بتایا کہ نوزیر حسن اور ان کی اہلیہ کا نام تمام حراستی مراکز کی فہرست میں چیک کیا گیا لیکن مذکورہ نام کسی لسٹ میں موجود نہیں ہے۔

وزات دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ لاپتہ جوڑے کی تلاش میں خصوصی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور اس وقت طلب عمل کو مختصر وقت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی درخواست کی گئی۔

واضح رہے کہ نوزیر حسن اور ان کی اہلیہ امیمہ حسن کو 12 جنوری کی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی-11 میں واقع ان کی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر ان کے بچوں کے سامنے اغوا کرلیا گیا تھا۔

اس حوالے سے نوزیر حسن کے والد حبیب حسن نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی، اس پر درخواست گزار کے وکیل لیفٹننٹ کرنل انعام الرحمٰن نے عدالت میں اعتراض اٹھایا کہ وزرتِ دفاع نے جوڑے کی تلاش کے لیے تحقیقات کا آغاز ان کے لاپتہ ہونے کے 6 ماہ بعد کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات سے ان کی اہلیت کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک شخص جو ایک حساس ادارے کے لیے کام کرتا ہو وہ اپنے رہائش گاہ سے لاپتہ ہوا ہو اور خفیہ ادارے کو مذکورہ جوڑے کے بارے میں کچھ اتہ پتہ ہے نہ یہ معلوم ہے کہ انہیں کس نے اغوا کیا۔

اس حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ جوڑے کی تلاش میں ایجنسیوں کی ناکامی پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے 3 ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔

اس ضمن میں وکیل نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہونے کے ناطے آئی ایس آئی کو معلوم ہونا چاہیے کہ سائنسدان کو کیسے اغوا کیا گیا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ وزارتِ دفاع کے قانون کے مطابق اگر حساس ادارے کا ملازم لاپتہ ہوتا ہے تو وزارت دفاع 24 گھنٹے میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہے اس لیے وزارتِ دفاع بتائے کہ ان کی جانب سے 6 ماہ میں کیا کارروائی عمل میں لائی گئی۔

درخواست گزار نے رمنا تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او)، سیکریٹری دفاع، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور وزارتِ داخلہ کو جواب داخل کرانے کے لیے نامزد کیا۔

اس کے ساتھ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ 12 اور 13 جنوری کی درمیانی شب 2 بجے کے وقت سیاہ لباس میں ملبوس نقاب پوش مسلح افراد کچھ سادہ لباس والے افراد سمیت مذکورہ سائنسدان کی رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوئے اور گھر کی تلاشی لی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ’ ناقابل بیان خوف و ہراس، افراتفری اورپریشانی پھیلا کر مسلح افراد جو یقیناً ایجنسیز سے تعلق رکھتے تھے، دونوں افراد کو اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ بچے والدین کے لیے روتے اور تڑپتے رہے‘۔

پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ متعلقہ اداروں کو نوزیر حسن اور ان کی اہلیہ کو عدالت میں صحیح سلامت پیش کرنے کی ہدایت دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے