دھاندلی کا مقابلہ

یہ سال دوہزار ایک کی بات ہے۔ اس وقت کہ جب ٹی وی چینلز کھلے تھے نہ سوشل میڈیا کا نام ونشان۔

’’آپ کو پتہ ہے میرا بھائی ضلع ناظم کا انتخاب لڑ رہا ہے ، آپ اس کی مدد کریں اور اسے ضلع ناظم بنوائیں،” سول آفیسرز میس پشاور میں گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ نے کوہاٹ میں تعینات پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا۔ بند کمرے کے اس اجلاس میں تنہا ایس ایس پی نہیں تھا بلکہ اس وقت کے چیف سیکرٹری صوبہ سرحد میجر (ر) نعیم اور اس وقت صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس سعید خان بھی موجود تھے۔

” سر آپ کا بھائی انتخابات نہیں جیت سکتا ، اس کے پاس صرف نو ووٹ ہیں، ایک اس کا اپنا اور نو ووٹ اس کے ساتھ نائب ناظم کے امیدوار کے،” کوہاٹ میں تعینات پولیس آفیسر نے گورنر کو ادب سے جواب دیا۔ ملک میں جنرل مشرف کی طاقت عروج پر تھی اور گورنر صاحب مشرف کے قریبی مصاحب میں شمار ہوتے تھے لہذا کوئی ان کے سامنے بات کرنے سے بھی ڈرتا تھا۔ مگر نوجوان افسر نے گورنر کو زمینی حقائق سے آگاہ کیا۔

"مجھے نہیں پتہ ، آپ نے اور ڈپٹی کمشنر نے یہ کام کرنا ہے ،” گورنرنے حکم دیا اور اجلاس ختم ہوگیا۔ مشرف کے طاقتور گورنر واضح طور پر پولیس اور انتظامیہ کو دھاندلی کی ہدایت دے رہے تھے۔ ایسی دھاندلی کی جس سے ان کے سگے بھائی طارق شاہ نے مستفید ہونا تھا۔

اجلاس کے بعد ایس ایس پی کوہاٹ واپس اپنے ضلع میں آئے اور انہوں نے ایک تحریری حکم جاری کیا کہ کوئی پولیس افسراور اہلکار کسی انتخابی امیدوار کی حمایت نہیں کرے گا۔ انتخاب کا دن آیا تو طارق شاہ کسی وجہ سے اپنا شناختی کارڈ کھو بیٹھے۔ ایس ایس پی کو پتہ چلا تو اس نے فوری طور پر ان کا شناختی کارڈ بنوایا اور انہیں کہا کہ وہ فوری اپنا ووٹ ڈالیں۔ طارق شاہ نے آخری لمحات میں اپنا ووٹ ڈالا۔

جب نتائج سامنے آئے تو گورنر کا بھائی اتنے ہی ووٹ لے سکا جتنے گورنر کو بتائے گئے تھے اور اس کا مد مقابل ملک اسد طاقتور گورنر کی تمام تر خواہشات کے برعکس جیت سے ہمکنار ہو گیا۔ گورنر نے بادل نخواستہ اپنے بھائی کے مدمقابل کی جیت تسلیم کی۔ شاید کوئی دوسرا آپشن بھی نہ تھا۔ آنے والے دنوں میں اس پولیس افسر کوسزا کے طورپر صوبہ بدر کردیا گیا۔ صوبہ بدری کا شکار ہونے والے اس پولیس افسر کا نام احسان غنی ہے۔ جی ہاں وہی احسان غنی جس نے حالیہ دنوں میں ایک موذی مرض سے جنگ لڑتے ہوئے نیشنل کائونٹر ٹیررازم کے ادارے کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آجکل نگران حکومت میں انہیں سویلین انٹیلی جنس ادارے آئی بی کا سربراہ مقرر کیا جارہاہے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی پیش خدمت ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت کی ابتدا میں جب انہیں اپنے غیر آئینی ہونے کا احساس کاٹنے لگا تو انہوں نے اپنے ناجائز اقتدار کو جائزکرنے کی کوشش کی۔ ان کے حواریوں نے انہیں بتایا کہ صرف ایک ریفرنڈم کے ذریعے وہ اپنے غیر قانونی کردار کا گندہ چہرہ دھو سکتے ہیں۔ اس پر مشرف نے اپنے لیے ایک ایسا انتخابی ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا جس میں ان کے مقابلے میں دوسرا کوئی امیدوار نہ تھا۔ لہذا منصوبہ بنایا گیا اور صوبوں، ڈویژنوں اور ضلعوں کی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئیں۔

ان دنوں پنجاب کے ضلع سرگودھا میں آفتاب سلطان نامی ڈی آئی جی تعینات تھے۔ مشرف کی خواہش کے بارےمیں جب پولیس افسران کو اس وقت کے آئی جی پنجاب پولیس ملک آصف حیات نے ہدایات دیں تو آفتاب سلطان سیدھے آئی جی کے پاس جاپہنچے اور انہیں بتایا کہ وہ اس فراڈ میں کسی قسم کا حصہ نہیں لینا چاہتے۔ نتیجے کے طور پر آئی جی نے فوری ٹرانسفر آرڈر دے کر تنازع کھڑا کرنے کی بجائے انتظامیہ کو بتا دیا کہ ڈی آئی جی کوکمپنی کے منصوبے سے پرے ہی رکھا جائے۔ ہوا بھی وہی۔

سرگودھا میں ریفرنڈم کے روز پولنگ اسٹیشنز پر ہو کا عالم تھا۔ ڈی آئی جی دن ایک بجے تک پولنگ اسٹیشنز پر گھومتا رہاپر مشرف کے ووٹر کہیں نظر نہ آئے مگرانتظامیہ نے شام کو ملک بھر میں پچانوے فیصد نتیجہ مشرف کے حق میں نکالا۔

مشرف انتخاب جیت گئے لیکن اگلے چند دن میں آفتاب سلطان کو سرگودھا سے ہٹا کر ایک کھڈے لائن پوسٹ پر تعینات کردیا گیا۔ دوسری طرف ریفرنڈم اور اس کے نتائج اتنے بدنام ہوئے کہ مشرف کو خود ٹی وی پر آکر کہنا پڑا کہ ریفرنڈم نتائج میں گڑ بڑکی گئی تھی۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے گڑ بڑ کرنے والوں کو کوئی سزا نہ دی۔

جب وقت بدلا اور ملک میں جمہوری حکومت آئی تو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسی آفتاب سلطان کو اپنا آئی بی چیف تعینات کیا۔ وہ رخصت ہوئے تو عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو حیران کن طور پر اسی آفتاب سلطان کو ایک بار پھر آئی بی کا سربراہ تعینات کیا گیا حالانکہ یہ وہ عہدہ ہوتا ہےجہاں صرف وہی شخص خدمات سرانجام دے سکتا ہے جو وزیراعظم سے راز و نیاز کرسکے۔

یہ وہی آفتاب سلطان ہیں جنہوں نے سال دوہزار چودہ میں اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے پیچھے موجود عناصرکو ناکام بنایا تھا۔

اوپر درج دو کرداروں میں سے ایک کا تعلق خیبر پختونخوا اور دوسرے کا تعلق پنجاب سے ہے۔ آفتاب سلطان ، احسان غنی سے سینئر ہیں اور پوری پولیس سروس میں ایک مثال بھی۔ آفتاب سلطان اور احسان غنی دونوں میں بہت سی چیزوں پر اختلاف ممکن ہے مگر دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے دور میں انتخابات کے وقت انتخابی دھاندلی کے منصوبوں پر عمل کیا نہ مدد۔

پاکستان میں دھاندلی منصوبے ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ مگر اس دھاندلی کو بے نقاب کرنے والے اور ناکام بنانے والے کرداروں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ یہ کردار نظام کے اندرمختلف شعبوں میں مختلف حیثیتوں میں موجود ہیں۔ کبھی آفتاب سلطان کی شکل میں تو کبھی احسان غنی کی صورت میں۔ ایسے کرداروں کو وقت عزت دیتا ہے کیونکہ سچ کا ہمیشہ بول بالا ہوتاہے۔

آج سال دوہزار ایک نہیں کہ جب نجی ٹی وی چینلز تھے نہ سوشل میڈیا کا طوفان۔ آج جدید ٹیکنالوجی نے ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل فون کے ذریعے دھاندلی کو روکنے کا ہتھیار دے دیا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر نے ہرشخص کو اپنی بات کہنے ، بتانے اور دکھانے کی سہولت بھی دے دی۔ انتخابات سے قبل پری پول دھاندلی کا تاثر مل رہا ہے مگر انتخابات کے روز دھاندلی شاید اب کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ ٹیکنالوجی نے ہرشخص کو آفتاب سلطان اور احسان غنی بننے کا موقع دے دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے