لسّی نوش

میں صدیوں کا بیٹا ہوں، نہ موہنجوڈرو کا پروہت لڑاکا اور جارح تھا نہ تضادستان کا باسی، پروہت کے پاس لڑنے کے لئے گھوڑے نہیں تھے دودھ اور لسی پینے کے لئے گائے اور بھینس ضرور موجود تھی۔ میں صدیوں سے لسی نوش ہوں، آرام سکون اور امن کی زندگی گزارنا چاہتا ہوں کوئی مجھ پر زبردستی حاکم بن بیٹھے مجھ پر پابندیاں لگا دے میں پھر بھی لسی پیتا ہوں۔ میں گرم ملک میں ہونے کے باوجود حملہ آوروں سے لڑائی سے نہیں اپنی اسٹریٹجی سے جیتتا ہوں میں حملہ آوروں کو، ظالموں کو اپنے اوپر ظلم کا موقع دیتا ہوں اور پھر جب ظلم حد سے بڑھتا ہے وہ میرے جوابی حملے سے غافل ہو چکے ہوتے ہیں تو میں ان ظالموں سے چھٹکارا پالیتا ہوں۔

میں سندھ دھرتی کا پتر ہوں، میرا اپنا انداز اور اپنا طریق زندگی ہے۔ جب فراعنہ مصر کے زمانے کا ’’بوائے کنگ‘‘ توت دو گھوڑوں کے شاہی رتھ پر سوار ہو کر نکلتا تھا تو یہاں کا پروہت صرف ’’اکانومی ‘‘ کی فکر میں رہتا تھا، غلے کے ذخیرے بھرتا تھا، ہم سب مل کر لسی پیتے روٹی کھاتے اور سو جاتے تھے۔توت کے مقبرے سے جہاں شاہی رتھ کا سارا سامان ملا ہے وہاں اس کا ایک خنجر بھی ملا ہے لوہے کا بنا ہوا یہ خنجر لوہے کے ایسے کیمیائی فارمولے کا بنا ہوا ہے جو زمین پر سرے سے دستیاب ہی نہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ خنجر جو توت ہروقت ساتھ رکھتا تھا آسمان سے گرنے والے کسی شہاب ثاقب کا ٹکڑا تھا، جسے کاٹ کر یہ لوہا بنایا گیا۔توت خنجروں ،گھوڑوں، تیروں اور تلواروں کو تیار کرتا رہا لیکن عین جوانی ہی میں کسی خفیہ دشمن نے ممکنہ طور پر زہر دےکر مار دیا۔کاش اس وقت کے مصر کے لوگ بھی لسی کے خوگر ہوتے تو توت کو برداشت کر لیتے۔موہنجو ڈرو کی تہذیب تباہ ہو گئی مگر کہیں لڑائی کے آثار نہیں، پنجاب بھی فاتحین کی گزرگاہ رہا لیکن بہت بڑی جنگیں پنجاب کی سرحد سے پار پانی پت میں ہی جاکر ہوئی تھیں۔مجموعی طور پر ہم لسی نوش، ظالم، جابر، آمر کو پورا موقع دیتے ہیں۔ہمارا ردعمل بہت دیر سے آتا ہے اسی لئے تو منیر نیازی نے کہا تھا؎

[pullquote]ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں![/pullquote]

سیاست کو دیکھ لیں آمر آئے، جابر آئے، سول آمر آئے میں نے ہر ایک کو وقت دیا، ظلم سہے، تکلیفیں برداشت کیں، نظام کی تباہی پر سرد آہیں بھرتا رہ گیا مگر میں سینہ تان کر کم ہی باہر نکلا۔ پورس اور رنجیت سنگھ دلیر تھے جنگجو تھے ہو سکتا ہے وہ لسی کم پیتے ہوں جو ان پر میرے مجموعی خواص کا اثر نہیں پڑا ۔

میں وہی لسی نوش ہوں وہی دیر کرنے والا، وہی صابر و شاکر ،وہی ظلم کا عادی ،وہی برداشت کا حامی،میں ڈھگا ہوں وہی ڈھگا جس کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا کر’’ کولہو کا بیل ‘‘بنا دیا گیا ہوں۔ میں وہی صدیوں کا بیٹا ہوں، میں وہی ظلم کا عادی ہوں۔

صدیاں بیت گئیں میں ویسے کا ویسا ہوں۔ بدقسمت ہوں کہ میرے ارد گرد کے حالات بھی ویسے کے ویسے ہیں۔ پہلے پروہت تھے اب حاکم ہیں، ہیر رانجھا کو حاکم اور قاضی سے شکایت تھی مجھے بھی اصلی حکمرانوں اور منصفوں سے شکایت ہے ،نہ وہ تاریخ کے دھارے کو دیکھ سکے تھے نہ آج دیکھا جا رہا ہے، وہ بھی زنجیروں، پابندیوں اور فتوئوں کے قائل تھے آج بھی قیدوبند، نااہلیوں اور فیصلوں سے کام چلایا جا رہا ہے اس وقت کے حاکم اور قاضی کے خلاف بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی اب بھی ویسا ہی ہے ۔اگر میرے ارد گرد کچھ نہیں بدلا تو میں کیسے بدلو ں گا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مظلوم نہیں ظالم بدلے ہیں تاریخ نے ظالموں کو یہ احساس دلایا ہے کہ ظلم کرنا اچھا نہیں، معاشرے کا شعور ظالموں کی اصلاح کرتا رہا ہے اور وہ ظلم کرتے کرتے ایک دن قائل ہو جاتے ہیں کہ مسئلوں کا حل ظلم کے ذریعے ،جبر کے ذریعے پابندیاں لگانا نہیں، معاشروں کو آزادی دینا مسئلے کا حل ہے۔

دنیا میں جہاں بھی جبر، آمریت اور ظلم رہا وہاں کبھی تخلیق اور تعمیر پروان نہیں چڑھی۔ جہاں غور و فکر اور اظہار رائے کی آزادی نہیں ہوتی وہاں کولہو کے بیل جنم لیتے ہیں اعلیٰ نسل کے گھوڑ ے تیار نہیں ہوسکتے۔

الیکشن اور سلیکشن میں واضح فرق ہوتا ہے مگر یہاں صدیوں سے سلیکشن ہورہی ہے ۔یہاں الیکشن سے ڈرایا جاتا ہے کہ شاید مخالف جیت کر نہ آجائیں۔ دنیا بھر میں ترقی وہاں ہوئی ہے جہاں مخالفوں کو برداشت کیا گیا ہے، جہاں اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں کو بھی برابر کا احترام ملتا ہے۔ الیکشن کا مطلب ہے کہ ہر فریق کو برابر کا موقع دیا جائے مگریہاں کے حکمران تو چوگان کے کھیل کے قائل ہیں، قطب الدین ایبک لاہور ہی میں چوگان کھیلتے گھوڑے سے گر کر ہلاک ہوگیا تھا۔ حکمران چاہتا ہے کہ اس کا گھوڑا تو چاق وچوبند ہو لیکن حریف کا گھوڑا لنگڑا ہو جائے اور یوں وہ کھیل جیت جائے ، حاکم اس طرح خوش تو ہو جاتے ہوں لیکن چوگان کو دیکھنے والے دنیا بھر کے ناظرین اس کھیل کو منصفانہ نہیں مانتے۔

انصاف نہ ہونے، برابر کے مواقع نہ دینے کی وجہ سے صدیوں کا بیٹا، سندھ سپت، پانچ دریائوں کا فرزند دائروں کے سفر سے نکل ہی نہیں پا رہا، ہر دفعہ کوئی نہ کوئی نیا فارمولا، کوئی نہ کوئی نیا نظام، کوئی نہ کوئی نیا فلسفہ، کوئی نہ کوئی نیا ڈاکٹرائن آ جاتا ہے اور یوں صدیوں، دہائیوںا وربرسوں کی کوششیں پھر سے صفر پر چلی جاتی ہیں۔ کولہو کا بیل جس کنویں کے گرد گھومتا ہے اگر کوئی اس میںگر جائے تو ہم تضادستانی اسے باہر نہیں نکلنے دیتے ہم اس کی ٹانگ پکڑ کر دوبارہ کنویں میں واپس کھینچ لیتےہیں، بس اسی اندھے کنویں کو ہم دنیا سمجھ بیٹھے ہیں اور ہر نئے آنے والے حاکم کو ہم ان داتا سمجھ کر اس کے ظلم و ستم اور نت نئے فارمولے کو برداشت کرتے ہیں۔

میں لسی پیتا رہوں گا الیکشن گزر جائے گا، سلیکشن ہو جائے گا، کولہو کا بیل اندھے کنویں کے گرد گھومتا رہے گا، جب نیند سے اٹھوں گا تو یہ طوفان گزر چکا ہوگا، پھر میں بولوں گا،پھر سینہ تان کر بات کروںگا، ابھی تو میں وہی امن پسند ہوں، میرا ہیرو، میرا ان داتا، میرا ظالم، میرا جابر، میرا حاکم اس وقت تک کمزور ہو چکا ہوگا، میں اسے آسانی سے رخصت کرلوں گا، پھر لسی پیئوں گا اور پھر سے سو جائوں گا۔ کبھی تو یہاں کے ظالم حاکم اور منصف کو شعور آئے گا اور وہ ظلم کو برا جانے گا، معاشرے کو تحریر و تقریر کی آزادی دے گا، نااہلیاں بند کرکے منصفانہ الیکشن ہونے دے گا۔ میں تو لسی پیئوں گا۔ خدایا دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں یا پھر اسے شعور مل جائے!!!۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے