پروفیسر یوسف حسن:ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے

میرے جیسا مزدور ہمیشہ ’اُس کو چُھٹی نہ ملی جسے سبق یاد رہے‘ والی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ طویل مُدت کے بعد اس مرتبہ عیدالفطر پر وطن جانے کا موقع ملا۔ وطن پہنچنے پربہت سے احباب سے ملاقات کی خواہش دل میں رہتی ہے مگر سب کو مل پانا کہاں ممکن ہوتا ہے۔

میں نے راولاکوٹ پہنچنے کے دو دن بعد اپنے کزن چیف ایڈیٹر’’ ماہنامہ روابط ‘‘ امتیاز خان سے کہا کہ میں پروفیسر یوسف حسن کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھنا چاہتا ہوں مگر میں اُن کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا، اس مرتبہ آپ نے مجھے پروفیسر یوسف حسن صاحب سے ملوانے اُن کے گھر لے چلنا ہے ،مگر اُن سے ملاقات میرے نصیب میں نہ تھی۔واپس لوٹنے سے چند دن پہلے بیمار پڑ گیا اور بلجیئم واپسی کے دن ہی راولاکوٹ سے راولپنڈی پہنچ پایا اور حسرت لیے لوٹ آیا۔سوچا تھا اب وطن یاترا کے حوالے سے رپوتاژ پر مبنی سلسلہ وار آرٹیکلز لکھنا شروع کروں گا کہ پروفیسر یوسف حسن صاحب کی رحلت کی خبر پڑھی۔کسی شاعر نے شائد پروفیسر یوسف حسن جیسی شخصیت کے انتقال پر ہی کہا تھا کہ: زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی

ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے

پروفیسر یوسف حسن

شومئی قسمت کہ آج پروفیسر صاحب پرپسِ مرگ لکھنا پڑ رہا ہے۔میں پروفیسر یوسف حسن کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں،جو دیکھا،محسوس کیا وہی قلمبند کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ جو لوگ پروفیسر صاحب کو قریب سے جانتے ہیں،جو اُن کی جدوجہد سے واقف ہیں اُنھیں پروفیسر صاحب پر ضرور لکھنا چاہیے،ایسی تحریریں مجھ سمیت تمام علم کے متلاشیوں کے لیے باعثِ صد دلچسپی ہوں گی۔

پروفیسر یوسف حسن ،خُدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے،اُن سے میری پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں اُس وقت ہوئی جب میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے کر راولپنڈی گیا۔میرے کزن اور بھانجے جو اصغرمال میں رہتے تھے،مجھے سیدپور روڈ پر واقع پروفیسر یوسف حسن کی لائبریری ’’گندھارا بُکس‘‘ میں لے گئے۔پروفیسر صاحب تب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغرمال میں پڑھاتے تھے اور شام کے اوقات میں لائبریری میں بیٹھتے تھے۔ مجھے اُردو ادب پڑھنے کا بہت شوق تھا۔پروفیسر یوسف حسن کی لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ہم دو روپے یومیہ پر کتاب لے جاتے۔سفید کپڑوں میں ملبوس پروفیسر صاحب کی لائبریری میں ہمیشہ محفل سجی ہوتی،چائے کے دور چلتے، پروفیسر صاحب کے ٹو سگریٹ کے مرغولے اُڑاتے گفتگو کیے جاتے،تحمل سے سوالوں کے جواب دیتے جاتے،سوال جیسا بھی ہو وہ خوش دلی سے جواب دیتے،کبھی ناگواری کا اظہار نہ کرتے۔

افسانے اور شاعری میں میری خصوصی دلچسپی دیکھ کر پروفیسر صاحب مجھے ترقی پسند لکھاریوں کے افسانے اور شاعری تجویز کرتے۔اُس عرصے میں پروفیسر صاحب کی غزلیں ، جنگ اور نوائے وقت کے ہفتہ وار ادبی ایڈیشنزمیں چھپتی تھیں۔چند مرتبہ ہم نے اُن سے اُن کا کلام سننے کی فرمائش بھی کی۔ پروفیسر صاحب کی شاعری عام فہم اور دل موہ لینے والی ہے۔

مجھے یاد ہے ایک مرتبہ روزنامہ جنگ کے ادبی ایڈیشن میں چھپنے والی پروفیسر صاحب کی ایک غزل مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ میں اخبار کا وہ پرچہ طویل عرصے تک سنبھال سنبھال کر رکھتا رہا تھا۔

پروفیسر یوسف حسن شاعری میں احمد ندیم قاسمی کے شاگرد تھے مگر جب بھی کوئی اُن کے کلام کی تعریف کرتا اور مجموعہ کلام شائع کرنے کا کہتا تو وہ انتہائی کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہتے کہ میرا کلام اُس معیار پر پورا نہیں اُترتا کہ اسے کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔

پروفیسر یوسف حسن ایک سکہ بند ترقی پسند تھے۔ گو کہ وہ کالج میں اُردو کے پروفیسر تھے مگر اُن کی تعلیم کا سلسلہ اُن کے مضمون اور کالج تک محدود نہ تھا۔وہ ایک کُل وقتی اُستاد تھے جن سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا تھا۔ میں ایک راندہ درگاہ انسان ہوں جو اپنی اُ فتادِ طبع اور پروفیسر صاحب سے محدود ملاقاتوں کے باعث کُچھ نہ سیکھ پایا مگر مجھے یہ اعتراف کرنے دیجیئے کہ میں نے اپنی زندگی میں انتہاپسندی سے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی طرف جو سفر طے کیا ہے اُس کے ایک محرک پروفیسر صاحب بھی تھے۔ خُدا اُن کی روح کو چین پہنچائے۔

پروفیسر یوسف حسن کے آباو اجداد جموال تھے جو تقسیمِ جموں کشمیر سے قبل ہجرت کرکے جہلم کے علاقے کالا گوجراں میں جا آباد ہوئے تھے۔ پروفیسر صاحب اپنے آپ کو فخریہ طور پر پنجابی کہتے تھے مگر دوسری قومیتوں کے تئیں کسی تعصب یا تنگ نظری کا اُن کے ہاں شائبہ تک نہ تھا۔ یہ یقیناََ اُن کے ترقی پسندانہ نظریات کا کمال تھا کہ وہ سماج کے محروم طبقات کے حوالے سے نہ صرف ہمدردی اور قربت رکھتے تھے بلکہ زندگی بھر طبقاتی تفریق کے خاتمے کے لیے مصروفِ جدوجہد رہے۔ اپنی اس جدوجہد میں پروفیسر یوسف حسن کو ریاست کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے بھی رکاوٹوں،دھمکیوں اور مصائب کا سامنا رہا مگر پروفیسر صاحب نے ان باتوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنا کام جاری رکھا۔

ہم جموں کشمیر کے باسیوں سے پروفیسر یوسف حسن کو خصوصی شغف تھا۔ اُن کے ہاں جانے پر انتہائی خوشی سے استقبال کرتے اور بالکل بھی محسوس نہ ہونے دیتے کہ ہم عُمر میں اُن سے بہت چھوٹے ہیں۔ہمارے علاقے کے سرکردہ قوم پرور اور ترقی پسند رہنماوں اور کارکنان سے بھی اُن کے دوستانہ تعلقات تھے،فرداََ فرداََ نام لے کر اُن کے بارے میں پوچھتے۔

پروفیسر صاحب پاکستان کے اُن ترقی پسندوں میں سے نہ تھے جو نظریات کی آڑ میں قومیتوں کے حقِ خودارادیت کے منکر ہیں ۔پروفیسر یوسف حسن نہ صرف جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا کی قومی آزادی کے حامی تھے بلکہ ایک بڑے وکیل تھے۔ اُن کا ماننا تھا کہ جموں کشمیر کے عوام اپنی قومی آزادی کی منزل پاکستان اور ہندوستان کے محنت کش عوام کی تائید اور مدد کے ذریعے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔

اس جہانِ رنگ و بو میں کون ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے۔ انسان آتے ہیں اور ایک روز پیوندِ خاک ہوتے ہیں۔ لواحقین اور دوست احباب کچھ عرصہ سوگ مناتے ہیں ، زندگی کا سلسلہ رواں دواں رہتا ہے اور پھر انسان اپنے پیاروں اور عزیزوں کو بھی بُھلا دیتا ہے مگر جو انسان اپنے اردگرد موجود انسانوں کے دُکھوں کو محسوس کرتے ہیں،اُن کے ازالے کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں اور عملی جدوجہد کرتے ہیں،اُنھیں انسان تادیر یاد رکھتے ہیں۔پروفیسر یوسف حسن بھی اُنہی میں سے ایک تھے۔ پروفیسر صاحب کی تعلیمی و ادبی خدمات اور اُن کی دلیرانہ جدوجہد تادیر یاد رکھی جائے گی۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تجھ کو مِیر سے صحبت نہیں رہی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے