کیا اب کالعدم جماعتیں بھی پارلیمان میں ہوں گی ؟

جب پاکستان کی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر پیرس میں فئنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد انہیں اس بات کی یقین دھانی کروا رہی تھیں کہ پاکستان آئندہ پندرہ ماہ کے اندر FATF کی دس ترجیحات کو پورا کرے گا ، تو ٹھیک اسی وقت پاکستان میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ و اہلسنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کو الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دیا جا رہا تھا ۔ان پر شیڈول فور کی وجہ سے جو سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں ، وہ ختم کر دی گئیں . ان کے منجمند اثاثے بحال کر دیے گئے اور ان کا نام شیڈول فور سے بھی نکال دیا گیا .

اہلیت کے فوری بعد انہوں نے اپنے کارکنان کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ان کا مشن اور موقف وہی ہے جس کے لیے ان کی جماعت معرض وجود میں آئی تھی اور جس مقصد کے لیے ان کی جماعت کے رہ نماؤں نے جانیں قربان کی ہیں ۔ صرف یہ ہی نہیں ، ان کی جماعت کے بیسیوں ارکان پاکستان راہ حق پارٹی کے ٹکٹ سے یا آزاد امیدوار کی حیثیت سے مختلف حلقوں سے انتخابات لڑرہے ہیں .

انتخابات لڑنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے تاہم ایسی جماعتوں کے ارکان جنہیں ریاست نے آئین و قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی وجہ سے کالعدم قرار دیا ہے، ان کو اپنے شدت پسندانہ نظریات اور افکار کی ترویج و اشاعت کے لیے مواقع فراہم کرنا خود اپنی بنائی گئی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہے .

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی متحدہ مجلس عمل میں شامل ہیں . ملی مسلم لیگ نے جب ایم ایم اے میں شمولیت کی درخواست دی تو تو انہیں کہا گیا کہ کیونکہ آپ کی اصل جماعت کالعدم ہے ، اس لیے آپ کو ایم ایم اے میں شامل نہیں کیا جا سکتا لیکن شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی ایم ایم اے میں شامل ہیں .

صرف یہ ہی نہیں بلکہ کئی انتہا پسند جماعتیں اس وقت انتخابی میدان میں اپنا شدت پسند بیانیہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں کاشت کر رہی ہیں . ان جماعتوں کے لیڈرز کو تو بعد میں "پناہ گاہیں” مل جاتی ہیں تاہم جو نوجوان ان کی جذباتی اور شعلہ انگیز تقاریر سن کر خطرناک راستے اختیار کر لیتے ہیں ،ان کے گھر والے انہیں تاعمر ڈھونڈتے ہی رہتے ہیں . میں کئی ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو ان مذہبی رہ نماوں کی تقریریں سننے کے بعد اپنے گھروں سے نکلے ، ان میں‌ سے کئی مارے گئے ، کچھ لاپتا ہیں ، کچھ جیلوں میں ہیں اور کچھ کے نام شیڈول فور میں شامل کئے گئے ہیں . ان کے قائدین نے تو اپنے نام شیڈول فور سے نکلوا لیے تاہم ان کی تقریریں سن کر میدان عمل سجانے والے اس وقت اپنے متعلقین کے لیے بھی بوجھ بنے ہوئے ہیں .

2015 میں وزارت خارجہ اور وزرات داخلہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل 212 جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے لیکن ان میں اکثر اپنا نام بدل کر کام کر رہی ہیں . ان میں سے کسی جماعت نے اپنا بینادی نظریہ اور ایجنڈا نہیں چھوڑا.

کچھ عرصہ پہلےجب ان پر حکومت کی جانب سے شدید دباو تھا تو اس وقت ان شدت پسند گروہوں کی مین سٹریمنگ کی بات کی گئی تھی . بظاہر ان جماعتوں کے رہ نماوں نے اپنے ماضی سے قطع تعلقی کی یقین دہانیاں بھی کروائی تھیں لیکن عملا ان کے رویوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی . اس لیے ان کی مین سٹریمنگ کی بات کرنا محض گفتگو کے سوا کچھ نہیں . ان عناصر کی بیرونی فنڈنگ بھی جاری ہے جبکہ دوسری جانب ان کے مضبوط تربیتی نیٹ ورکس کی اب بھی کام کر رہے ہیں .

ڈاکٹر شمشاد اختر کی جانب سے عالمی فورم پر ان عناصر کے خلاف کارروائی کی یقین دھانی کے باوجود پاکستان میں اس قسم کے عناصر کو کھلے عام جلسے جلوسوں کی اجازت دینا اور انہیں انتخابات لڑنے کی اجازت دینا کیا پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کروانے کی دعوت دینے کے مترادف نہیں ؟؟ ریاست کو سنجیدگی کے ساتھ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے بیج بونے والے تمام عناصر کی بیخ کنی کرنی ہوگی ورنہ پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر پایا جانے والے منفی تاثر ختم نہیں ہوگا.

یہ تحریر آج نئی بات اخبار میں شائع ہوئی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے