تعلیم تماشا جاری ہے

 

وسعت اللہ خان

پاکستان کے آئین میں ہر بچے کو میٹرک تک لازمی اور مفت تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر آئین کا کیا۔ اس میں تو اقلیتوں کو بھی مذہبی آزادی اور تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے اور ماورائے قانون حکومت کی تبدیلی کی سزا بھی دی گئی ہے۔ تو پھر کیوں نہ آئین کو طاق میں رکھ کے زمینی حقائق پر بات ہو جائے۔

جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے انیس سو بہتر میں نجی تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ نہیں کیا تب تک پاکستان میں تعلیم اور  زر کا اٹوٹ انگ قائم نہیں ہوا تھا۔ ملک کی زیادہ تر آبادی سرکاری اسکولوں کے پھیلے ہوئے مربوط جال سے واقف تھی جہاں والدین بچے کو لے جا کے داخل کروا دیتے اور بے فکر ہو جاتے۔

اساتذہ بھی قلیل مشاہرے  کے باوجود اتنے باشعور نہیں ہوئے تھے کہ کلاسیں لینے کے بجائے انکریمنٹس، تبادلوں اور تنخواہوں میں اضافے کے تصور میں غلطاں رہیں اور اس کے لیے جلوس نکالیں، دھرنے اور الٹی میٹم دیں۔ تب تک بچوں کی تعلیم اور اخلاقیات پر توجہ کے سوا باقی ذاتی مسائل ثانوی تھے۔ تب تک کسی ایسے اسکول کا بھی تصور نہیں تھا جس میں کھیلنے کودنے کے لیے کم از کم ایک گراؤنڈ نہ ہو۔ تب تک سرکاری اسکولوں کے علاوہ اگر چرچا تھا تو کرسچین مشنری اسکولوں، مخئیر صنعت کاروں کے قائم کردہ فلاحی اسکولوں، مذہبی مدارس اور چند این جی اوز کے اسکولوں کا۔

پھر ہوا یوں کہ جیسے جیسے سرکاری ارسطو تعلیم جیسے  بورنگ شعبے سے اکتاتے چلے گئے توں توں خلا پر کرنے کے لیے نجی شعبہ آگے آتا گیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ہی نجی شعبے نے اس یقین دہانی کے بعد کچھ سرمایہ کاری کی جرات کی کہ جو اسکول قومیایا لیے گئے ان کے بعد اب کوئی نیا اسکول نہیں قومیا جائے گا۔

چنانچہ انیس سو پچھتر میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم قائم ہوا۔ جب ضیا حکومت نے بھٹو صاحب کے ڈی نیشنلائزیشن کے عمل کو منسوخ کرنا شروع کیا اور کئی تعلیمی ادارے پرانے مالکان کو واپس کیے گئے تو نجی شعبے کو مزید ڈھارس ہوئی اور انیس سو اٹہتر میں سٹی اسکول سسٹم، انیس سو بیاسی میں فوجی ایجوکیشن سسٹم، انیس سو پچاسی میں لاہور اسکول آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب گروپ آف کالجز، انیس سو اٹھاسی میں روٹس اسکول سسٹم اور پھر دارِ ارقم، الائیڈ اسکولز، آرمی پبلک اسکولز اور چل سو چل۔۔۔

پچھلے پندرہ برس میں عالم یہ ہوا کہ کمرشل پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد میں ستر فیصد اور سرکاری و فلاحی تعلیمی اداروں کی تعداد میں محض تیس فیصد اضافہ ہوا۔ سن دو ہزار تک تعلیمی سیکٹر میں پرائیویٹ اسکولوں کا تناسب انیس فیصد تھا آج چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ہر تین میں سے پہلا بچہ کسی سرکاری اسکول میں دوسرا بچہ کسی پرائیویٹ اسکول میں اور تیسرا بچہ کہیں نہیں پڑھ رہا۔ جتنے بھی اساتذہ تعلیمی نظام سے منسلک ہیں ان میں سے پینتالیس فیصد پرائیویٹ سیکٹر میں ملازم ہیں۔

تعلیم کے سرکاری شعبے میں سالانہ سرکاری سرمایہ کاری  کل قومی آمدنی کے ڈیڑھ سے دو فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس میں سے بھی اسی فیصد پیسہ تنخواہوں، مراعات، انفراسٹرکچر اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے۔۔۔

دوسری جانب نجی تعلیمی شعبے میں پچھلے بیس برس کے دوران کم از کم پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تمام انتظامی اخراجات منہا کرنے کے بعد بھی نجی تعلیمی شعبے کے منافع کی کم از کم شرح اوسطاً پچیس تا تیس فیصد ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کی اٹھاون فیصد آمدنی فیسوں سے اور باقی دیگر مدوں سے آتی ہے۔ سرکاری اور مشنری اسکولوں کے برعکس کمرشل نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ دس فیصد اضافہ معمول کی بات ہے۔

اس سال متوسط طبقے کے والدین یوں چیخ پڑے ہیں کہ اکثر نجی اسکولوں نے فیسوں میں یکدم پندرہ سے بیس فیصد اضافہ کر دیا۔ ویسے ہی سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں پرائیویٹ اسکول کم از کم پانچ گنا مہنگے ہیں۔ اس پر اگر ایک خاندان کے چار بچوں کی فیس میں پندرہ سے بیس فیصد کا ماہانہ اضافہ ہو جائے تو سوچئے والدین کا مزید کیا مالی حشر ہو گا۔

معاملہ صرف فیسوں میں اضافے تک محدود رہے تو بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن جتنی فیس جاتی ہے اتنے ہی ماہانہ اخراجات مزید برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ مثلاً ایک اوسط معیار کے پرائیویٹ اسکول میں داخلے سے پہلے ہی ایپلی کیشن اور رجسٹریشن فیس کے نام پر پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ اسکول کی تعلیمی قربان گاہ کے چرنوں میں دان کرنا پڑتا ہے۔ اس پر مستزاد سیکیورٹی ڈپازٹ بھی دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ ڈپازٹ قابلِ واپسی بتایا جاتا ہے مگر اسے کئی برس بعد تک یاد رکھنا اور پھر واپس لینا بھی جوئے شیر لانا ہے۔

فیس واؤچر میں عموماً دو ماہ کی ایڈوانس فیس درج ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر چارجز ( بھلے کمپیوٹر ہو نہ ہو)، جنریٹر چارجز، پلاٹ چارجز ( بھلے کرائے کی بلڈنگ ہو)، سیکیورٹی ارینجمنٹ چارجز (بھلے آٹھ آٹھ ہزار کے دو گارڈز ہی کیوں نہ ہوں)، سالانہ چارجز (جانے کس بات کے؟)، لائبریری چارجز (اللہ جانے ساڑھے تین برس کا بچہ کونسی لائبریری استعمال کرتا ہے) وغیرہ وغیرہ کہیں شامل ہے کہیں نہیں۔

آج فینسی ڈریس شو ہے لہٰذا آپ کے بچے کو بھالو بن کے آنا ہے (بھالو کا لباس آٹھ سو روپے میں فلاں فلاں دوکان سے دستیاب ہے)۔۔ آج سینڈوچ میکنگ ڈے ہے لہٰذا بچے کو ایک پلاسٹک مگ، پلیٹ، جوس کے ڈبے، بریڈ اور پنیر کے ساتھ بھیجیں۔ آج یہ ہے، کل وہ ہے، پرسوں فلاں ہے، ترسوں چناں ہے۔ لو جی والدین کا ہو گیا کلیان۔۔۔

اکثر پرائیویٹ اسکول اب کورس کی کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری تک بہ اصرارِ خود فراہم کرتے ہیں۔ پہلی کلاس کے بچے کے والدین کو ان اشیا سے بھرے بیگ کے صرف چھ سے دس ہزار روپے ہی تو دینے ہیں۔ اس سے نہ صرف والدین کا قیمتی وقت بچتا ہے بلکہ اسکول کو بطور سپلائیر ’’معمولی‘‘ کمیشن  بھی حاصل ہوتا ہے۔

یونیفارم صرف فلاں فلاں دکان پر ہی دستیاب  ہے۔ سردیوں کا الگ، گرمیوں کا الگ۔ مگر اس سال یونیفارم کا رنگ لائٹ گرے سے ڈارک گرے کر دیا گیا ہے اور بچے کی قمیض پر کڑھا ہوا اسکولی مونو گرام بھی نیلے سے لال ہو گیا ہے۔ یہ نیا یونیفارم تو خریدنا ہی پڑے گا۔ نہیں خریدا تو ڈسپلن توڑنے کا سوال اٹھ سکتا ہے۔ ہاں ٹھیک ہے کہ آپ دس یا بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپے ماہانہ فیس دے رہے ہیں لیکن بچے کے شناختی کارڈ کے تیس روپے اور چھ تصویریں بھی تو آپ ہی دیں گے۔

یقیناً کئی پرائیویٹ اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے خاصا بہتر ہے اور تعلیمی نتائج بھی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن آمدنی میں سے انفراسٹرکچر پر کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ نہ کوئی جاننا چاہتا ہے نہ بتانا۔ کم آمدنی والے علاقوں اور چھوٹے قصبات میں چار سو گز کی کرائے کی رہائشی عمارت کے مرغی خانوں میں انگلش میڈیم تعلیم کی گاجر لٹکا کے جو برائلر نسل تیار ہو رہی ہے وہ کس گراؤنڈ میں جا کے اپنے ہاتھ پاؤں سیدھے کرے، اپنے وزن کے برابر بستہ کس لیے اٹھائے اٹھائے پھرے، والدین اور اسکولوں کے درمیان فیس واؤچر کے رشتے کے علاوہ بنیادی انسانی رشتہ کیسے بنے؟ اس بارے میں کوئی بھی نہیں بتاتا کہ کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔

جب سے اٹھارویں آئینی ترمیم نافذ ہوئی یہی نہیں معلوم پڑ رہا کہ تعلیم وفاق کی ذمے داری ہے کہ صوبے کی۔ اس کنفیوژن میں نجی شعبہ پھاگ کھیل رہا ہے۔ خود وزیرِ اعظم نواز شریف کو پچھلے ہفتے ہی دو برس کے اقتدار کے بعد پتہ چلا کہ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کا کاغذی وجود تو ہے مگر اس میں زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ حتٰی کہ اس کاچیئرمین تک نہیں۔ چنانچہ وزیرِ اعظم نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اتھارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کا حکم دیا ہے اور رواج کے مطابق رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمیٹی بھی نجی تعلیم کے انڈوں پر بٹھا دی جائے۔

ویسے جو قوانین زندہ ہیں بھی وہ بھی کس کام کے؟ مثلاً پنجاب میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کنٹرول اور سرگرمیوں کو باقاعدہ بنانے کا قانون انیس سو چوراسی سے، سندھ میں دو ہزار ایک سے اور خیبر پختون خوا میں دو ہزار دو سے نافذ ہے۔ لیکن آج تک کیا ریگولیٹ ڈی ریگولیٹ ہو سکا بس یہ نہ پوچھیے گا۔ کہنے کو پرائیویٹ اسکولوں کی کارٹیلائزیشن کا معاملہ مسابقتی کمیشن اور مفادِ عامہ کے تحت وفاقی و صوبائی محتسبِ اعلی کے دائرے میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ دائرہ کس کے دائرے میں آتا ہے؟ بوجھو تو جانیں۔۔۔۔۔

جب پچاس فٹ چوڑی گلی میں پانچ مرلے کے پلاٹ کی تین منزلوں میں بنے دس بائی آٹھ کے نو کمروں میں ایک سو سے زائد نونہالوں کو بارہ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے والی کوئی بچاری مس فرخندہ تعلیم پلا رہی ہو اور اس مکان کے باہر بڑے سے بورڈ پر ہائیڈل برگ پبلک اسکول (آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم سے تسلیم شدہ) لکھا ہو تو کس سے پوچھیں کہ آکسفورڈ ایجوکیشن سسٹم کب ایجاد ہوا تھا؟

شکر کیجیے کہ آپ کا بچہ ان پینسٹھ لاکھ نونہالوں میں شامل نہیں جو روزانہ اسکول کو باہر سے دیکھتے گزرتے ہیں اور پھر گزر ہی جاتے ہیں۔۔۔۔

اب سنورتے رہو بلا سے میری
دل نے سرکار خودکشی کر لی

with thanks of daily Express

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے