ایجنسیاں نہیں میاں صاحب ویہلے ہیں

مجھے واقعی نہیں معلوم کہ جو خفیہ ہاتھ کسی اور قومی جماعت کو نظر نہیں آ رہا وہ میاں نواز شریف کو صاف صاف کیوں دکھائی دے رہا ہے؟ شاید میاں صاحب کو نیند کی کمی، پے درپے مقدمات اور گھریلو پریشانیوں کے سبب سیاسی ہیلوسینیشن (ہزیان) لاحق ہوگیا ہے۔ تب ہی تو دن رات کبھی خلائی مخلوق دکھائی دیتی ہے تو کبھی عدلیہ فوج گٹھ جوڑ تو کبھی عمران خان عدلیہ اور فوج کی مرکب اسٹیبشلمنٹ کا لاڈلا نظر آتا ہے۔

یعنی اس وقت مسلم لیگ ن کو دو بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ ایک عمران خان اور دوسرے نواز شریف۔ مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم بھی شاید اسی لیے زور نہیں پکڑ پا رہی کہ اس کے رہنما اسی شش و پنج میں ہیں کہ نواز شریف کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی صفائیاں پیش کرتے رہیں یا عمران خان کو یکسوئی سے ہدف بنائیں؟

تازہ ترین خفت پارٹی کو یہ اٹھانا پڑی کہ ملتان میں مسلم لیگ ن کے ایک صوبائی امیدوار اقبال سراج کے گودام پر چھاپہ پڑا، انہیں زدو کوب کیا گیا اور بقول اقبال سراج ایک خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے دھمکیاں دیں کہ اگر نون کے ٹکٹ سے دستبردار نہ ہوا تو پھر میری خیر نہیں۔ اس پر نواز شریف نے لندن میں بیٹھے بیٹھے بیان داغ دیا کہ ایجنسیاں ہمارے امیدواروں کو ہراساں کر رہی ہیں اور وفاداریاں تبدیل کروا رہی ہیں۔

خدا کا شکر ہے تھپڑ کھانے والے امیدوار اقبال سراج کی غلط فہمی جلد دور ہو گئی اور ایک نئے بیان میں تصیح کی کہ انہیں ہراساں اور زدوکوب کرنے والے دراصل محکمہ زراعت کے اہلکار تھے کسی ایجنسی کے نہیں۔ مگر نواز شریف اس تصیح کے باوجود اپنے بیان پر قائم ہیں۔

جب گذشتہ برس جولائی میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا گیا تو اس وقت انہیں صبح شام خلائی مخلوق دکھائی دینے کا عارضہ لاحق نہیں ہوا تھا۔ شکایت تھی بھی تو عدلیہ اور نیب سے۔ مگر جب فیض آباد دھرنے نے سول حکومت کی کمزوری کا پول کھولا اور اسے ختم کرانے کے لیے عسکری فراست کو حرکت میں لانا پڑ گیا۔

اس کے بعد نواز شریف نے جب بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی مخلوط ثنا اللہ زہری حکومت ٹوٹنے، قدوس بلوچ کے وزیرِ اعلیٰ بننے اور پھر سینیٹ کے انتخابات میں عمران زرداری حمایت سے صادق سنجرانی کے چیرمین بننے کا منظر دیکھا تو انہیں ہر جانب آسیب ٹپائی دینے لگے۔

حالانکہ فیض آباد دھرنے کا پرامن اختتام ہو کہ بلوچستان میں حکومت سازی یا پھر سینیٹ سازی۔ جہاں جو بھی ہوا ایسا صاف شفاف ساحری عمل تھا جس پر طبی شعبے سے وابستہ سرجنز بھی عش عش کر اٹھے۔

ا س کے بعد تو میاں صاحب کو ہر لٹکتی رسی سانپ نظر آنے لگی۔ کوئی بتائے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت سے اکتائے جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز جنوبی پنجاب صوبہ محاز بناتے ہیں اور ایک ہفتے بعد اس محاز کو تحریکِ انصاف میں ضم کر دیتے ہیں یا پھر جنوبی پنجاب کے روائتی سردار و جاگیر دار مسلم لیگ نون چھوڑ کر ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے ضمیر کی پکار پر عمران خان کی بیعت کر لیتے ہیں تو اس دیدہ دلیری میں نادیدہ ہاتھ کہاں سے آ گیا؟

شریف خاندان کی بے وفائیوں سے تنگ چوہدری نثار علی خان اگر اپنا سیاسی راستہ الگ کر لیتے ہیں اور بطور آزاد امیدوار انہیں جیپ کا انتخابی نشان الاٹ ہو جاتا ہے اور یہی انتخابی نشان حسنِ اتفاق سے ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور مظفر گڑھ سے مسلم لیگ نون کا ٹکٹ ایک ہی دن ایک ساتھ واپس کر کے آزاد حیثیت میں انتخاب لرنے والے آٹھ امیدواروں کو بھی الاٹ ہو جاتا ہے تو اس میں ایجنسیاں کہاں سے کود پڑیں؟ کیا میاں صاحب نہیں جانتے کہ انتخابی نشانات تو الیکشن کمیشن الاٹ کرتا ہے۔

یہ بھی محض حسنِ اتفاق ہے کہ راجہ قمر السلام کو چند دن پہلے نیب کلیئر چٹ دیتا ہے اور جیسے ہی وہ بطور مسلم لیگ ن امیدوار چوہدری نثار علی خان کے بالمقابل کاغذاتِ نامزدگی بھرتے ہیں انہیں نیب بدعنوانی کے الزام میں حراست میں لے لیتا ہے۔ بھلا آزاد و خود مختار نیب کے معاملات کا ایجنسیوں سے کیا تعلق؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 29 جون کو کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ماتحت ججوں کے فیصلے کالعدم کرنے کا اختیار تو ہے مگر ماتحت ججوں کی تضیحک کا حق نہیں۔ محض اتفاق ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف 2015 سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی سات جولائی کو پہلی سماعت کا نوٹیفکیشن بھی انتیس جون کو ہی جاری ہو گیا۔

اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر 2005 سے عام ٹریفک کے لیے بند سڑک کے دو کلومیٹر طویل ٹکڑے کو فوری طور پر کھولنے کا جو حکم جاری کیا اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ اور سیکرٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں چار جولائی کو روبرو طلب کر لیا ہے۔ اور اب حسنِ اتفاق سے خود جسٹس صدیقی کو سات جولائی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہونا ہے۔ یہی جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہیں جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے خاتمے میں فوجی ثالثی کا بھی سخت نوٹس لیا تھا۔ تو کیا اب نواز شریف ان اتفاقات کی ذمہ داری بھی کسی نام نہاد گٹھ جوڑ یا ایجنسیوں پر ڈالیں گے؟

میاں صاحب ہوش کے ناخن لیجیے۔ جتنے بھی امیدوار وفاداریاں طلب کر رہے ہیں یا دھڑا دھڑ تحریکِ انصاف میں شامل ہو رہے ہیں یا پھر بطور آزاد امیدوار ایک ہی انتخابی نشان حاصل کر رہے ہیں اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ کرکٹ کے میدان میں نہ ہاکی کھیلنے کا تجربہ کرتے نہ یہ سب ہوتا۔

جب سے ملتان میں بدسلوکی کا نشانہ بننے والے مسلم لیگی امیدوار اقبال سراج نے تصیح کی ہے کہ انہیں کسی ایجنسی نے نہیں بلکہ محکمہ زراعت نے پیٹا، اس کے بعد سے مجھے بھی شبہہ ہے کہ بلوچستان میں زہری حکومت شاید واپڈا نے تبدیل کروائی، صادق سنجرانی شاید اوگرا کی حمایت سے سینیٹ کے چیئرمین بنے، مسلم لیگ نون سے ٹوٹنے والے امیدواروں کو شاید وفاقی چیمبر آف کامرس نے پٹی پڑھائی، کراچی کی سیاست غالباً کے الیکٹرک کنٹرول کر رہی ہے، ہو نہ ہو عمران خان کو سٹیٹ بینک کی ممکنہ خفیہ تائید حاصل ہے۔

حساس ایجنسیاں تو پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی بقا کے استحکام اور دھشت گردی کے خلاف جنگ میں اس قدر الجھی ہوئی ہیں کہ انہیں فرصت ہی کہاں کہ وہ کسی میلی کچیلی سیاسی شطرنج کی بساط پر مہرے آگے پیچھے کریں یا بھانت بھانت کے میڈیا چینلز، اخبارات و سوشل میڈیا پر پہرے یا کٹھ پتلیاں بٹھائیں۔

میاں صاحب آپ تو ویہلے ہو چکے۔ ایجنسیاں اتنی فارغ نہیں کہ آپ کی ہر بات کو سنجیدگی سے لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے