شجاعت بخاری:نفرت کے بیوپاری سوگ مناتے ہیں

مسئلہ کشمیر ایک ایسی انڈسٹری بن چکی ہے جس کی بہت سی فرنچائزہیں ۔ ہم میں سے ایک بڑا طبقہ بطور مڈل مین مسئلہ کشمیر کی صنعت کا مال ادھر اُدھر کرتا ہے ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے معتبرصحافی اور دانشور سید شجاعت بخاری کو عید سے ایک روز قبل بے دردی سے قتل کردیا کیا گیا ۔ شجاعت بخاری کا یہ قتل مسئلہ کشمیر کی صنعت سے حاصل ہونے والے مالی مفادات سے جڑا ہوا ہے ۔ شاید شجاعت بخاری کی کشمیر کے حوالے سے متوازن اور توانا آواز بہت سی دکانوں کیلئے خطرہ تھی۔

شجاعت بخاری سے راقم کی ملاقات اکتوبر 2015ء کے آخری ہفتے میں ان کے دفتر واقع سری نگر میں ہوئی تھی ۔ یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی ، سلام ودعا کے بعد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چند منٹ گفتگو ہوئی ۔ غالباً اس دن سری نگر کے ایک ہوٹل کے کانفرنس ہال میں ان کا خطاب بھی سننے کو ملا تھا ۔ البتہ شجاعت بخاری کے مضامین اکثر پڑھنے کو ملتے تھے ۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں اس قدر محتاط ہوتے تھے کہ بعض اوقات ان کا موقف سمجھنے میں مشکلات بھی پیش آتی تھیں ۔

شجاعت بخاری

شجاعت بخاری کی شہادت ایک قومی سانحہ ہے ، اس سانحہ پر حادثہ یہ ہوا وہ جو اِس طرف کے کچھ لوگ (بالخصوص صحافیوں میں سے) اُسے غدار کہتے ہیں ، اس کی سرگرمیوں کے سخت ناقد تھے. آج وہی لوگ شجاعت بخاری کی تعریف میں آسمان ایک کیے ہوئے ہیں۔ حرام تنخواہ حلال کرنے کا شاید یہ آسان نسخہ ہے ۔

مسئلہ کشمیرکی انڈسٹری کی راہ میں جب بھی کوئی متوازن آواز آئی ، وہ غداری کی گولی کا شکار ہوئی۔ یہ ایک طویل فہرست ہے کس کس کوغدار کہہ کر مارا گیا۔ چند سال قبل میرواعظ عمرفاروق کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک سینئر حریت لیڈر پر الزام لگایا کہ وہ جس کے کردار پر انگلی اُٹھا دیں اُسے ماردیا جاتا ہے ۔

یاسین ملک نے چند سال قبل اخبارات میں مضمون لکھے کہ غداری کا الزام لگا کر ماردیا جاتا ہے ۔ شجاعت بخاری پراِس طرف سے غداری کا الزام لگایا گیا ۔ ارشاد محمود نے جو لکھا وہ 100فیصد درست ہے لیکن اس پر یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ شجاعت بخاری کوآزادکشمیر یا پاکستان سے ٹارگٹ کیا گیا۔ بالخصوص صلاح الدین نے تو عالمی سطح پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے شجاعت بخاری کامیڈیا ٹرائل تنخواہ یا خوشنودی کیلئے جنہوں نے بھی کیا وہ لوگ مجرم ہیں اور آج کل گناہوں کا ”کفارہ” ادا کررہے ہیں لیکن تلخ بات ہے یہ ہے کہ ظاہراً جو کفارہ ہے وہ بھی حصول مال پانی کے بندوبست پر ہوا۔ مروانے پر بھی مال اور ماتم پر بھی مال۔۔۔۔۔ واقعی پیٹ دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔

شجاعت بخاری کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر اور ہندوستانی میڈیا لشکر طیبہ پرالزام لگارہا ہے اور آزادکشمیر کی حکومت سیاسی جہادی ونگ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حکومت اوربھارت پرالزام لگا رہے ہیں۔یوں ہم خوف کے ایسے عالم میں ہیں کہ پر اکسی وار کی اندھی گولی کا شکار ہم اور شکار کون کررہا ہے ہم جانتے بھی ہیں لیکن ہمیں معلوم بھی نہیں۔کسی بھی الزام کی تائید وتردید ایک نیا جھگڑا ہوتا ہے ۔

جہاں ہمارے کچھ لوگوں کا خیال جیسے ارشاد محمود نے اپنے کالم میں لکھا ، افتخارگیلانی نے بھی اپنے کالم میں اس کی وضاحت کی کہ شجاعت بخاری کے خلاف نفرت انگیز مہم یہاں سے چلائی گئی ۔ یہ ان کا اپنا نقطہ نظر ہے ،اس کی حمایت اورمخالفت بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ شجاعت بخاری کی شہادت سے کس کو فائدہ ہوا ۔ میرے خیال میں ہندوستان کو زیادہ فائدہ ہوا ۔

آپریشن آل آؤٹ جس کے تحت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک کو کچلنے کا پروگرام ہے ، کی حکمت عملی پر محبوبہ مفتی اپنی رائے رکھتی تھی ۔ محبوبہ مفتی کو مسلح جدوجہد کرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی تاہم وہ اس کا سیاسی حل چاہتی تھیں ،اس لیے وہ مسلح جدوجہد کرنے والوں سے مذاکرات کیلئے اختیارات بھی مانگ رہی تھیں ۔

شجاعت بخاری کی شہادت کے فوراً بعد بھارتیہ جنتا پارٹی محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سے الگ ہوگئی جس کے بعد محبوبہ مفتی اکثریت سے محروم ہوگئیں اور انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے، گورنر راج نافذ ہوگیا اور اب آپریشن آل آؤٹ کا ٹارگٹ پورا کیا جائے گا۔ ہمارے لوگوں کا بے دردی سے قتل کیا جائے گا۔ قربانیوں کی نئی داستانیں رقم ہوں گی ۔اِس پار کا روبار چمکے گا یورپ کے دورے ہوں گے سمینارز اور کانفرنسز ہوں گی ۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم پریس کانفرنس کریں گے ، جانے پہچانے چہرے مظفرآباد آزادی چوک میں آزادی کیلئے مظاہرہ کروائیں گے ۔ ہندوستان کوخطرناک دھمکیاں دی جائیں گی ۔ وزیراعظم اپنی ٹیم کے ہمراہ مسئلہ کشمیراجاگر کرنے کیلئے بیرونی ملک جائیں گے ، صدرآزادکشمیر لبریشن سیل کو پھر چالیس پچاس لاکھ کا بل بھیج دیں گے کہ تحریک آزادکشمیر کا فلاں پروگرام فلاں ملک کے فائیو سٹار ہوٹل میں ہوا تھا ۔کچھ اور گروپ بینزز لگا کر سڑکوں پر نکلیں گے بھارت کے خلاف نعے بازی کریں گے شام کو کرارے نوٹ اور پھر اگلے دن کی تیاریاں ۔

اخلاص کہیں بھی نہیں ہے ، یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر وہ انڈسٹری ہے جہاں بحیثیت کشمیری قوم ہی نہیں ہم ایک ایک فرد کی حیثیت سے فروخت ہورہے ہیں ، اپنا اپنا سچ اور اپنا اپنا جھوٹ ہے ۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن وہ اُسے سچ کہتے ہیں، یہی آمدن کا ذریعہ ہے ۔ کچھ لوگ دلالی کرتے ہیں ، کچھ حب الوطنی فروخت کرتے ہیں۔ کچھ نے الحاق کا اتوار بازار لگایا ہوا ہے ، کچھ خود مختار ی کا جمعہ بازار سجائے بیٹھے ہیں ، کچھ دیہاڑی دار ہیں۔کچھ کی ذمہ داری میں ہر متوازن آواز کے خلاف ہرزہ سرائی ہے ۔

یہ لوگ پہلے شجاعت بخاری کے پیچھے لگے ہوئے تھے ، اب ارشاد محمود جیسے بڑے نام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ کون لوگ ہیں؟وہ سب جن کا گزارہ اس طرح کی اُچھل کود پرچلتا ہے ۔

1988کے بعد ہمارے لوگ مسلسل مررہے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کس پالیسی کے تحت یہ قربانیوں کی تاریخ رقم کی جارہی ہے ۔ ہندوستان اہل جموں کشمیر کا بدترین دشمن ہے ۔ کالے قوانین کے نفاذ سے ہمارے لوگ بدترین مصائب کا شکار ہیں۔ مارا جارہا ہے ، مروایا جارہا ہے ۔ یہ کھیل کب تک ہمارا مقدر ہے ۔ خدا را پالیسی تبدیل کی جائے ۔اس انڈسٹری کو بند کرکے اسے حقیقی آزادی کی تحریک بنایا جائے ، جس کا واحد راستہ یہی ہے کہ منقسم کشمیر کے تینوں حصوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر جامع مذاکرات کیے جائیں ، ایک ایسے حل پر اتفاق کیا جائے جس میں کسی فریق کی شکست نہ ہو ۔ اس کھیل کو سُلگتا ہوا رکھنے کی پالیسی کی قیمت اس ریاست کے لوگ ادا کررہے ہیں۔

پاکستان کے حکمرانوں کو ایک قدم آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں موجود کشمیری بھی خواہ ان کا نظریہ کوئی بھی ہو ۔اس کیلئے کردار ادا کریں اور بھارت اور پاکستان کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ پہلے مرحلے میں کشمیر میں امن قائم کرنے کے تمام تر بنیادی تقاضے پورے کریں ۔ پھر ریاست جموں کشمیر کے درمیان جو ریجنل دیواریں ہیں ، انہیں ہٹایا جائے ۔ سیاسی لیزان قائم کرنے کیلئے کشمیر بیسڈ سیاسی جماعتوں کو تمام حصوں میں دفاتر قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر تینوں فریق بیٹھ کر اس مسئلہ کاحتمی حل نکالیں ۔

ایک دوسرے کی مخالفت میں بننے والی پالیسیوں کی وجہ سے متوازن آواز ہر ایک کو غدار محسوس ہوتی ہے اور پھر مفادات کے کھیل میں انسانی زندگیوں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔شجاعت بخاری ایسے ہی رویے کا شکار ہوا ۔ ہزاروں ریاستی باشندے ان ہی رویوں کی وجہ سے مارے گئے ۔ ہمارے دوستوں اور دشمنوں کویہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کے بچوں کو خوشحالی کا راستہ ریاست جموں وکشمیرسے گزرتا ہے یہ انڈسٹری نہیں دوکروڑ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے