ملکی معیشت اور معصوم نگران

روپے کی قدر میں کمی اور پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ پر ان بیچارے مہمانوں یعنی نگرانوں کو کوسنے کے لئے جس معصومیت، بےخبری اورجہالت کی ضرورت ہے وہ’’میلہ مویشیاں‘‘ میں باافراط دستیاب ہے۔ یہ سب سمدھی شریف کا کمال ہے جسے دیر تک بھگتنا پڑے گا اس لئے بہتر ہوگا کہ کچھ چیخیں آئندہ کے لئے بچا رکھیں۔ پاکستانی معیشت وہاں پہنچا دی گئی ہے کہ واپسی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔

بس یوں سمجھ لیں کہ’’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘ اس میں منیر نیازی بھی شامل کرلیں تو سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی یعنی؎اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھاصاف ستھرے پڑھے لکھے با بوئوں پر مشتمل نگران حکومتیں کلرکانہ انداز میں ہر قسم کے اعداد وشمار تو پیش کررہی ہیں جن کا’’ترجمہ‘‘ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس لئے انہیں چاہئے سلیس زبان میں سادہ لوح عوام کو سمجھائیں کہ’’سمدھی مافیا‘‘ معیشت کے ساتھ کیا کرگیا ہے مثلاً پرویز الہٰی نے جاتے ہوئے اربوں روپے پیچھے چھوڑے تھے جبکہ ’’شہباز سپیڈ‘‘ پوری طرح جھاڑو پھیر کر گئی ہے اور پنجاب حکومت کا حال یہ ہےپلے نئیں دھیلاکردی پھردی میلہ میلہ آنے والوں پر رحم آتا ہے کیونکہ ماہر اقتصادیات کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو، جادوگر بہرحال نہیں ہوتا خصوصاً جب سیاستدان بالغ بےبی بلاول جیسے ہوں جو’’بھوک مٹائو پروگرام‘‘ اٹھائے پھرتے ہوں کیونکہ’’ چٹ منگنی پٹ بیاہ‘‘ کی طرح بھوک مٹانے کا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی انتہائی تجربہ کار اور قابل حکیم سے بھوک مار گولیاں بنوا کر یہ بینظیر و اکسیر گولیاں قوم میں مفت تقسیم کردیں۔

یہ کیسے کم عقلے لوگ ہیں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگراموں اور بھوک مٹائو کارڈز کے بل بوتے پر بھوک جیسی بلا سے لڑنے چلے ہیں۔ یہ انجانے میں مانگ کر کھانے کے کلچر کو پروموٹ کررہے ہیں۔ یہ’’نیشن بلڈنگ‘‘ کے بجائے ’’بھیک بلڈنگ‘‘ کے سفیر ہیں جنہوں نے شاید چینیوں کا یہ گھسا پٹا محاورہ بھی نہیں سنا کہ’’بھوکوں میں مچھلیاں بانٹنے کے بجائے انہیں مچھلیاں پکڑنے کی تربیت دو‘‘۔ملکی معیشت سفیدے کا درخت نہیںOAKکے درخت کی مانند دھیمے دھیرے، سہجے طریقے سے بڑھتی ہے۔ یہ کمیشن کک بیک نہیں کہ جھپٹا اور یہ گئے وہ گئے۔

یہ کثیر الجہت تیاریاں مانگتی ہے، اگر توفیق ہو تو سنوMerlin Olsonنے کہا تھا”One of Lifeʼs most painful moments come when we must admit that we did not do our homework, that we are not prepared”

.ہوس اقتدار کا مارا ہمارا سیاستدان لوگوں کو بیوقوف بنانے اورالیکشن جیتنے کے لئے تو جان لڑا دیتا ہے، ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے لیکن ’’ہوم ورک‘‘ اور’’تیاری‘‘ پر ہرگز ہرگز نہ یقین رکھتا ہے نہ اس کی پروا کرتا ہے کیونکہ اس کی تمام ترسیاست اس کی ذات کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ شوکت عزیزیاں اور اسحاق ڈاریاں مارتا ہے۔ ان کی ذاتی معیشتیں تویقیناً مضبوط تر ہوجاتی ہیں لیکن ملکی معیشت وہاں جا پہنچتی ہے جہاں ہماری معیشت پہنچ چکی بلکہ ابھی پہنچنے کو ہے۔

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔بچے نے معمولی سا او لیول کا امتحان دینا ہو تو مت ماری ہوتی ہے، پورے گھر کو وخت پڑا ہوتا ہے کہ برخوردار نے او لیول کا ہمالیہ سر کرنا ہے اور یہ ٹٹ پونجیئے کبھی ’’سستی روٹی‘‘ کبھی ’’پیلی ٹیکسی‘‘ کبھی ’’بینظیر انکم سپورٹ کارڈ‘‘ اور کبھی’’بھوک مٹا ئو پروگرام‘‘ جیسے ڈراموں کے اسکرپٹ اٹھا لاتے ہیں۔

سیانے کہہ گئے

"Prepare and prevent instead of repair and repent.”لیکن و وٹ بٹورنے کی تیاری کے علاوہ اور کسی قسم کی تیاری کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے جبکہ خصوصاً معیشت تو بہت ہی پیچیدہ اور گھمبیر ترین مسئلہ ہے خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل سکڑتے جارہے ہیں، آبادی ٹوٹے ہوئے چھتر کی طرح بڑھتی جارہی ہے۔

"When you are thirsty, it is too late to think about digging a well”یہی حال ہے موجودہ ملکی معیشت کا جسے کوئی معجزہ بھی سہارا نہیں دے سکتا اور اس میں فیصلہ کن کردار اسحاق ڈار نے ادا کیا…….. اور بہت سوچ سمجھ کرکیا۔نگرانوں کو الزام دے کر اپنا الزام ضائع نہ کرو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے