شہر جائے بھاڑ میں

بندہ ڈھیٹ نہ ہو تو ڈوب مرنے کیلئے چلوبھر پانی ہی کافی ہے لیکن اگر سخت جان سیاستدان ہو تو پانی سے بھرا 20فٹ گہرا اور 200فٹ چوڑا گڑھا اور وہ بھی مال روڈ پر ….ناکافی ہوتا ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ لاہور تشریف لائے اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ خود دیکھ لے اور یہ فیصلہ بھی خود ہی کر لے کہ پیرس اور وینس میں سے کس شہر کے ساتھ زیادہ زیادتی ہورہی ہے کہ یہ شہر نارمل حالات میں پیرس اور ابنارمل حالات میںوینس نہیں کیونکہ ہمارا گڈ گورننس کا مارا ہوا یہ شہر ’’لہور لہور اے‘‘ جس کے بارے میں یہ ’’افواہ‘‘ مدتوں سے بہت مقبول ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

میں چند سال پہلے چند دوستوں کے ساتھ سمندر میں نیم گھرے استنبول کی سات پہاڑیوں میں سے ایک پر کھڑا استنبول کے سحر میں گم تھا اور میرے ساتھیوں کی بھی یہی کیفیت جب اچانک میرے منہ سے نکلا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا بھی نہیں ہوا لیکن جس نے استنبول نہیں دیکھا تو سمجھ اس کے ماں باپ کی ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی، پیدائش تو بہت دور کی بات ہے۔مجھے اپنے لاہور کی حالت دیکھ کر دکھ ہورہا ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ملال اس بات کا ہے کہ ذمہ داران کمال بے شرمی سے صورت حال کا سارا ملبہ نگران حکومت پر ڈال رہے ہیں جو اخلاق باختگی کی آخری انتہا ہے۔

میں کہ خوش ہوتا تھا دریاکی روانی دیکھ کرکانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کرایک بھرپور بارش گڈگورننس کا سارا پروپیگنڈا بہا کر لے گئی۔ سڑکیں ندی، نالوں، کھالوں، تالابوں، جوہڑوں میں تبدیل ہوگئیں۔ جی پی او چوک میں ’’گڑھے‘‘ والی جگہ پر ڈرائینگ کے بغیر زیر زمین تعمیراتی کام کا انکشاف کس کے منہ پر کالک مل رہا ہے؟ اورنج لائن انڈر گرائونڈ اسٹیشن کے اردگرد لاتعداد شگاف کس کی منصوبہ بندی کے منہ پر طمانچوں کی مانند ہیں؟ پانی سے بھرے ہوئے انڈر پاسز کن کی قابلیت کا منہ چڑا رہے ہیں؟ قبرستانوں میں پانی بھرنے سے مردوں کے تیرتے ہوئے اعضا کس کی 10سالہ کارکردگی کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں؟

مرنے والوں کے قاتلوں کا تعین ممکن نہیں، سڑکوں پر کشتیاں چل رہی ہیں اور ذمہ دار انہیں ٹھہرایا جارہا ہے جو ابھی اپنی سیٹوں میں ڈھنگ سے سیٹل بھی نہیں ہوئے۔ منگل کی شام میں ’’جیو‘‘ پر ’’کیپٹل ٹاک‘‘ دیکھ رہا تھا۔ برادرم حامد میر کی کومنٹری سن رہا تھا۔ گندگی، غلاظت، نجاست کے ڈھیر تھے، ابلتے گٹر اور نالیاں تھیں مریض در مریض حامد میر کو بتا رہے تھے کہ ان کی اس حالت کا سبب وہ گندا پانی ہے جو انہیں پیاسا مرنے سے بچنے کیلئے پینا پڑتا ہے۔ دس بارہ بار تو میں ’’میرے مطابق‘‘ میں آرسینک ملے پانی پر ماتم کر چکا ہوں۔چند پوش بستیوں کو چھوڑ کر اصلی، حقیقی، تاریخی لاہور تو ڈسٹ بن سے بھی بدتر ہے۔ چینیوں کا ایک قدیم محاورہ ہے کہ ’’ہر شہر میں ایک سے زیادہ شہر آباد ہوتے ہیں‘‘ یہ ازل سے ہے ابد تک رہے گا لیکن محروم پسماندہ آبادیوں میں بھی کم از کم صاف پانی کی فراہمی تو یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

ظالمو! بہت صاف نہ سہی کم از کم آرسینک ملا پانی تو رعایا کو نہ پلائو۔گزشتہ کالم میں بڑھتی مہنگائی، چڑھتے ڈالر، گھٹتے روپے اور بد سے بدتر ہوتی ملکی معیشت بارے تفصیلاً عرض کیا تھا کہ نگرانوں کا اس سے کوئی تعلق لینا دینا ہرگز نہیں بلکہ یہ ساری صورت حال ’’سمدھی شریف‘‘ کا کارنامہ ہے جو سوچ سمجھ کر سرانجام دیا گیا۔ یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے نگرانیے بیچارے تو نہ تین میں نہ تیرہ میں، اسی طرح ڈوبتے تیرتے لاہور کا بھی ان مہمان اداکاروں کے ساتھ دور پار کا بھی واسطہ نہیں کہ خوبصورتی بدصورتی اوور نائیٹ جنم نہیں لیتی۔یہ سب دس سال پر محیط غیر متوازن، غیر منطقی او رمکمل طور پر شخصی حکمرانی کے بھیانک نتائج ہیں لیکن افسوس اتنی گریس بھی نہیں کہ بندہ جزوی طور پر ہی ذمہ داری قبول کرلے۔

شاید ہم ہیں ہی ڈنگ ٹپائو لوگ جو گونگلوئوں سے مٹی جھاڑتے رہتے ہیں اور سوائے ’’دکھاوے‘‘ کے کچھ بھی پلے نہیں۔لاہور شہر جس بے تکے، بے سرے، بے ہنگم طریقے سے پھیلتا جارہا ہے، مہذب دنیا میں ممکن ہے؟ تجاوزات سے لیکر آوارہ شاپروں تک پر تو کنٹرول نہیں۔ اسلام آباد کے بعد کسی نئے شہر کی توفیق نہیں ہوئی۔ ٹائون پلاننگ کا شاید تصور ہی نہیں۔ زیر زمین گم سیوریج سسٹم کون دیکھے گا سو کھربوں روپیہ میٹروز، اورنج ٹرینوں پر غارت کر کے وقتی واہ وا اور ووٹ سمیٹ لو….. شہر جائے بھاڑ میں، یہ ہے ان کی کل اسٹرٹیجی جس کی قیمت عوام چکا رہے ہیں اور تب تک چکاتے رہیں گے جب تک مکمل طور پر ہوش میں نہیں آتے ….. اور شاید یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے