اقتدار کی راہداریوں میں پنپنے والی سازشوں کا انکشاف ، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی زبانی ، اقتدار کے دھڑن تختے کے بعد منصف اعلی کے خلاف کی جانے والی سنسنی خیز منصوبہ بندی کا پردہ فاش ، زخمی نواز شریف چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجواتے بھجواتے رہ گئے ، سابق وزیراعظم چیف جسٹس کی جاسوسی کرواتے رہے؟ شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے آخر کیوں معزرت کیوں کر لی !!!
[pullquote]چیف جسٹس آف پاکستان نے سال کی سب سے بڑی خبر خود ہی بریک کر دی !!![/pullquote]
صورتحال اس وقت دلچسپ رخ اختیار کر گئی جب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے منگل کے روز سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاء الحق قاسمی تقرری کیس میں اشارتاً اپنے خلاف رچائی گئی ایک سازش کو بے نقاب کر دیا، فواد حسن فواد جو کہ سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری رہ چکے ہیں روسٹرم پر موجود تھے اور چیف جسٹس حسب معمول ان پر طنز کے نشتر برسا رہے تھے،
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا فواد آپ انتہائی زہین اور بااثر بیوروکریٹ ہیں، میں آپکی صلاحیتوں کا معترف ہوں، آپکو ہر بات کا علم ہوا کرتا تھا، آپ کی نظر تو میری نقل و حرکت پر بھی رہا کرتی تھی،
چیف جسٹس نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ کھلی عدالت میں ایک ایسی بات بھی کہ ڈالی جسے سن کر وہاں موجود لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے، چیف جسٹس بولے” مجھے معلوم ہے فواد حسن فواد کئی خفیہ میٹنگز میں شرکت کیا کرتے تھے جہاں میرے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی باتیں ہوا کرتی تھیں”
چیف جسٹس کے اس اچانک زبانی حملے پر فواد حسن فواد نے خاموش رہنے میں ہی خیریت جانی اور کیس کی کاروائی آگے بڑھ گئی، لیکن کمرہ عدالت میں بیٹھے صحافی اس ساری گفتگو کو انتہائی غور سے سنتے ہوئے اپنے نوٹس لینے میں مصروف تھے، ریفرنس کی بات پر کئی صحافی اس سوچ میں پڑ گئے کہ چیف جسٹس نے کس ریفرنس کا تزکرہ کیا، کہیں یہ وہی ریفرنس تو نہیں جو گزشتہ ہفتے لیگی رہنما صدیق الفاروق نے سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کیخلاف دائر کیا تھا.
چیف جسٹس کے ریمارکس نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس آف پاکستان سے 27 مارچ کو ہونے والی ملاقات کے چند روز بعد بھی اسی طرح کی کچھ متضاد اطلاعات کئی صحافیوں کو موصول بھی ہوئی تھیں لیکن ریفرنس تیار کرنے والوں نے اس سارے معاملے کو انتہائی عقل مندی اور ذہانت سے میڈیا کی نظروں سے اوجھل رکھا، اب چونکہ چیف جسٹس نے خود ہی اس راز سے پردہ اٹھا کر ہمارے مطابق جو محض ایک غیر مصدقہ اطلاع تھی اسکو خبر بنا ہی دیا ہے تو ہم نے بھی کچھ ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس سارے معاملے میں شامل رہ چکے ہیں، بالآخر ایک ایک کر کے ان ساری باتوں کا پتا چل ہی گیا جن کے بارے میں دو روز قبل تک کوئی شخص تصور بھی نہیں سکتا تھا،
[pullquote]
نواز شریف کی فواد حسن فواد اور اٹارنی جنرل سے دوریاں بڑھ گئیں !!![/pullquote]
28 جولائی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد اپنے خلاف آنے والی عدالتی آبزرویشنز جن میں انکو گارڈ فادر اور سسلین مافیا کہا گیا اور تاحیات نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اپنی پارٹی صدارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا، 1985 سے جاری اپنے سیاسی سفر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتا دیکھ سابق وزیراعظم نے ایک بڑا اور سخت فیصلہ لیا ، یہ فیصلہ تھا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا جس کو سابق وزیراعظم نے سب سے پہلے اپنے چند قریبی دوستوں کے سامنے رکھا، جن میں سے بیشتر نے ریفرنس دائر کرنے پر اتفاق کیا، اس کے بعد جو دوسری اہم بات زیر غور لائی گئی وہ یہ تھی کہ یہ ریفرنس دائر کس کی جانب سے کیا جائے گا،
زرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے یہ زمہ داری اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو سونپی جنہوں نے اپنے قائد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی حامی بھر لی، ہماری اطلاعات کے مطابق اس معاملے پر وزیراعظم ہاوس اور پنجاب ہاوس میں کئی خفیہ میٹنگز بھی ہوئیں جہاں مختلف امور زیر بحث آئے،دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو انتہائی صیغہ راز میں رکھا گیا بلکہ ہر میٹنگ میں شریک اہم شخصیات سے حلف بھی لیا جاتا تھا کہ کسی طریقے سے یہ خبر لیک نہ ہونے پائے.
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اس معاملے پر اپنے قریبی رفقاء سے جب رائے مانگی تو زیادہ تر نے نواز شریف کی رائے سے اتفاق کیا تاہم دو ایسی اہم شخصیات تھیں جنہوں نے چیف جسٹس کیخلاف اس انتہائی اقدام کی سخت خلاف ورزی کی تھی، ہماری اطلاعات کے مطابق ان شخصیات میں ایک اس وقت کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی جبکہ دوسرے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد تھے ، کئی لوگوں کا یہ خیال ہے فواد حسن فواد اور اشتر اوصاف سے نواز شریف کی دوریوں میں بھی یہ ہی وجہ کار فرما ہے، جب ہم نے ان دونوں شخصیات سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا، اٹارنی جنرل اور فواد حسن فواد کے اختلاف رائے کے باوجود سابق وزیراعظم نواز شریف تب بھی نہ مانے وہ بضد رہے کہ یہ ریفرنس ہر صورت دائر کرنا ہے، زرائع کے مطابق نواز شریف نے اپنی قانونی ٹیم کو ریفرنس تیار کرنے کی ہدایت کر دی جو انتہائی خاموشی کے ساتھ اس کام پر لگ گئی اور چند روز میں ریفرنس کا ڈرافٹ تیار کر لیا گیا،
[pullquote]
شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے معزرت کر لی،[/pullquote]
نواز شریف نے لیگل ٹیم کو ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت بھی کر دی تاہم ہماری اطلاعات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے سے ایک روز قبل ہی اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے قائد سے معزرت کر لی ، میاں نواز شریف کے بار بار اصرار پر بھی شاہد خاقان عباسی ریفرنس دائر کرنے سے باز رہے، اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ وزیراعظم نے اپنے قائد کی ممکنہ ناراضی کو بھی بالائے طاق رکھا اور اس معاملے پر بالکل خاموشی اختیار کر لی، اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کیخلاف تیار کردہ ریفرنس فائل نہ کیا جا سکا جو اب محض ایک فائل بن کر کسی دراز میں مستقل طور پر رکھ چھوڑا گیا ہے، ریفرنس دائر نہ ہونے کی وجہ کو جاننے کیلیے ہم نے مختلف شخصیات سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جن میں اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں لیکن مسلسل کوششوں کے باوجود سابق وزیراعظم سے ہمارا رابطہ نا ہو سکا، دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی نواز شریف کے چند قریبی لوگ یہ مانتے ہیں کہ ریفرنس دائر نہ کر کے شاہد خاقان عباسی نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اگر اس وقت وزیراعظم پاکستان کیجانب سے ریفرنس دائر کر دیا جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے.