ایون فیلڈریفرنس فیصلہ:نوازشریف پھراُبھرسکیں گے؟

نواز شریف ، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف احتساب عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ نواز شریف کو دس سال قید اور اسی لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 32کروڑ 20لاکھ روپے)جرمانہ ، مریم نواز کو سات سال قیداور بیس لاکھ پاؤنڈ(33کروڑ5لاکھ روپے) جرمانہ جبکہ کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنادی گئی ۔ اس وقت تحریک انصاف خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے جبکہ مسلم لیگ نواز کی صفوں میں حزن کا سماں ہے ۔

اس مقدمے کی منفرد بات یہ ہے کہ اکثر باخبر لوگ اس حد تک پہلے ہی سمجھ چکے تھے کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آئے گا کیونکہ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد جو فضا ء بنی تھی، وہ سیاسی پیشین گوئیوں کے لیے آسانی پیدا کرچکی تھی ۔یہ غالباً پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی سابق وزیر اعظم نے بدعنوانی کے مقدمے میں عدالت میں 90 کے آس پاس پیشیاں بھگتی ہیں۔ نواز شریف کو اپنی اہلیہ کلثوم نوازکی علالت کے باعث لندن جانا پڑا اس لیے وہ آخری کچھ سماعتوں میں عدالت پیش نہ ہو سکے ۔ اس دوران انہوں نے وقفوں وقفوں کے ساتھ لندن سے مختصر بیانات جاری کیے جن میں وہ ملک واپسی کا عزم ظاہر کرتے رہے ۔ نواز شریف نے احتساب عدالت سے دو دن قبل استدعاکی تھی وہ فیصلہ عدالت میں پیش ہو کر سننا چاہتے ہیں ، اس لیے چند دن کی مہلت دی جائے ، لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی ۔

اس مقدمے میں کچھ چیزیں نمایاں طورپر مشاہدے کا حصہ رہیں ۔ عدالت میں اوپن ٹرائل ہوا ، رپورٹرزاحتساب عدالت کے جج کے ریمارکس ، وکلاء کی بحث اور جرح کی تفاصیل اور گواہوں کی باڈی لینگویج تک سب کچھ رپورٹ کرتے رہے۔اس سے نہ صرف عام آدمی کوصورت حال کی تفہیم میں مدد ملتی رہی بلکہ عدالتی نظام کے کئی تضادات اور کمزوریاں بھی سامنے آئیں۔ نواز شریف کے ساتھ اکثر پیشیوں پران کی بیٹی مریم نواز،مریم، اورنگزیب، آصف کرمانی ، طارق فضل چوہدری ، دانیال عزیز اور پرویز رشید نظرآتے رہے۔ مریم نواز شریف مسلسل میڈیا کے ساتھ گفتگو بھی کرتی رہیں۔ یہ ایک طرح سے ان کی سیاسی میدان میں اترنے کی مشق تھی اور یہ بات تقریباً طے ہو چکی تھی کہ مسلم لیگ نواز کی سیاسی وارث مریم نواز ہی ہوں گی۔

اسی کیس کے دوران نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ بڑے بڑے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے جن میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پر زور دیا گیا اور سیاست میں ’’خلائی مخلوق‘‘ کی دست درازیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اس مزاحمتی انداز کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی نہ کسی سطح پر نواز شریف اپنی سیاسی عصبیت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور عام لوگ بھی یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ نواز شریف کو کریشن نہیں بلکہ کسی اور چیز کی سزا دی جارہی ہے۔ یہ الزام بھی لگتا رہا کہ نواز شریف کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں کے پیچھے دائمی قوت کے حامل ادارے کارفرما ہیں۔

دوسری جانب نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف تھے ، جنہوں نے عملی طور پر اپنے بھائی کے بیانیے کا دفاع نہیں کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ہمیشہ محتاط گفتگو کی، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موقع ملنے کے باوجود انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی کمر میں چُھرا نہیں گھونپا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت قانونی طور پر تو شہباز شریف کے پاس ہے ، ووٹ بینک البتہ نواز شریف ہی کا ہے۔

آج سات جولائی کوایک ریفرنس کا فیصلہ ہو چکا، العزیزیہ اور ہِِل میٹل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ بظاہر نہیں لگتا کہ مزید دو ریفرنسوں کے فیصلے حالیہ فیصلے سے زیادہ مختلف ہوں گے ۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ سزا کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف اور ان کی بیٹی وطن واپس آئیں گے؟ اب تک کی معلومات کے مطابق وہ ضرور وطن واپس آئیں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کی جماعت اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی وطن آمد کے موقع کو یادگار بنا سکتی ہے یا نہیں۔آج احتساب عدالت میں دیکھی گئی صورت حال البتہ مایوس کن ہے ، مسلم لیگ نواز کا کوئی بھی سرکردہ رہنما فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجود نہیں تھا ، وہ سب لوگ غائب تھے جو پیشیوں کے دوران نواز شریف کے ساتھ لٹکتے دکھائی دیتے تھے۔خیال تھا کہ نواز شریف کے تازہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی قوت آج احتساب عدالت کے باہر اور شاہراہِ دستور پر دکھائی دے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

شہباز شریف جو اب مسلم لیگ نواز کے سربراہ ہیں۔ انہیں اس موقع پر عدالت میں ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ہمت نہیں باندھی۔ فیصلے کے بعد ایک ٹھنڈی سی پریس کانفرنس کر کے فرض ادا کر دیا۔ اس صورت حال میں نہیں لگتا کہ نواز شریف کی ممکنہ آمد کے وقت وہ ان کا تاریخ ساز استقبال کر سکتے ہیں۔شہباز شریف دائمی قوتوں کے حامل اداروں کی زیادہ ناراضی مول نہیں لیں گے ۔

اس فیصلے سے بلاشُبہ تحریک انصاف اور عمران خان کی انتخابی مہم کو تقویت ملے گی۔ اس سے قبل نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ ، وزارت عظمیٰ سے معزولی اور پھر اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی محرومی کو تحریک انصاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے جَم کر استعمال کیا۔ اب جبکہ نواز شریف کو سزا سنا دی گئی ، وہ ملزم سے مجرم قرار دیے جا چکے تو تحریک انصاف کو مناسب وقت پر ایک مؤثر کارڈ ہاتھ آ گیا ہے۔ وہ لوگ جوابھی تک شش وپنج میں مبتلا تھے ، اب ووٹ ڈالنے کے تعلق سے اپنے رجحان کا اظہار کریں گے ۔

عمران خان نے اس فیصلے کے بعد نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کے خلاف لفظی گولہ بازی تیزکردی ہے۔انہیں 25جولائی کے بعد بننے والی ممکنہ حکومت میں اپنا بڑا حصہ دکھائی دیے رہا ہے لیکن ایک بڑے چیلنج کا خوف بھی ان کے سر پر سوار ہے ۔ وہ چیلنج ’’جیپ‘‘ کے انتخابی نشان کے تحت الیکشن لڑنے والے متعددامیدوار ہیں ۔ عمران خان کو انداز ہ ہے کہ یہ ’’جیپ والے‘‘ نواز شریف کے ووٹ بینک کو تو متاثر کریں گے ہی، لیکن نئی بننے والی حکومت میں عمران خان کو مرکزی کردار ملنے کی صورت میں یہ لوگ ان کی ناک کا بال بن جائیں گے ۔ لگتا یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے سے قبل ہی کنٹرول کرنے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا جا چکا ہے۔

پاکستانی سیاست میں نظریات سے زیادہ شخصیات اہم رہی ہیں ۔ نواز شریف کی سیاسی بقا اسی میں ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے ، وہ واپس وطن آ جائیں ، ان کی بیٹی کو زندگی کا پہلا الیکشن لڑنے سے قبل ہی اس فیصلے کے بعد نااہلی کا سامنا ہے ،لیکن انتہائی موہوم سا امکان ہے کہ ہائی کورٹ میں اپیل کے بعد انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے۔ صورت حال جو بھی ہومسلم لیگ نواز اور نواز شریف کی سیاست کے لیے اس وقت بھرپور عوامی تحرّک لازم ہے ۔

بد قسمتی سے مسلم لیگ نواز نے اپنے سبھی ادوارِ حکومت میں طاقت کی مرکزیت کے فارمولے پر عمل جاری رکھا اور پارٹی کونچلی سطح تک جمہوری بنیادوں پر استوار نہیں کیا ۔ اس کی ماضی قریب کی مثال بلدیاتی نمائندوں کی بے اختیاری اور بے چارگی ہے ۔ ترقیاتی فنڈز تک صرف بالائی سطح کے لوگوں کی رسائی رہی ، یہی وجہ ہے کہ اب کی بار بھی بلدیاتی نظام مکمل طور پر بے روح نظرآیا۔ حالیہ انتخابات کے لیے جاتی کیے گئے ٹکٹوں میں بھی یہی رویہ روا رکھا گیا. مسلم لیگ نواز کے نچلی سطح کے وابستگان میں بددلی پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

اس وقت نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کو گراؤنڈ پر اپنی پارٹی کی سرگرم موجودگی اور فعالیت کی ضرورت ہے ۔ اب یہ شہباز شریف کا امتحان کہ وہ خود کوایک صوبے کے منتظم کی سطح سے اٹھا کرقومی سطح کا سیاسی رہنما ثابت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے