ایون فیلڈریفرنس فیصلہ:احتساب عدالت میں صحافی نے کیا دیکھا؟

پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سب سے بڑے کیس کا فیصلہ سننے اور اس کی کوریج کے لیے میں علی الصبح احتساب عدالت اسلام آباد پہنچا.ایون فلیڈ کو میں چونکہ پہلے دن سے کور کر رہا ہوں اور آج اس کا فیصلہ آنا تھا، عام دنوں میں جب سماعت ہوتی تھی تو احتساب عدالت کے سامنے گزرتی شاہراہ کھلی رہتی تھی . آج خلاف معمول عدالت کے چاروں اطراف سڑکوں کو خار دار تاروں سے بند کیا ہوا تھا، میڈیا کے ان نمائندوں کو آگے جانے کی اجازت تھی جو اس کیس کو پہلے دن سے کور کر رہے تھے ، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے عدالت کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا، پولیس اور رینجرز کی جدید ترین گاڑیاں گشت پر تھیں، ایسا لگ رہا تھا کہ کسی قلعے کو فتح کرنے کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے .

صبح جب جانے لگا تو سوچ رہا تھا کہ آج ن لیگی کارکنان کی بڑی تعداد عدالت کے باہر موجود ہو گی مگر وہاں پہنچا تو تلاش بسیار کے باوجود کارکن تو نہیں ملا سوائے ڈاکٹر آصف کرمانی کے ، جو عدالت کے داخلی دروازے پر سیکورٹی اہلکاروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے ، اہلکار انہیں اندر نہیں جانے دے رہے تھے اور وہ بضد تھے کہ میں کمرہ عدالت کے اندر جاؤں گا.

نو بجے پولیس کو جامع تلاشی دینے کے بعد ہم کمرہ عدالت میں پہنچے ، نو بج کر 35 منٹ پر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر انصاف کی کرسی پر آ کے براجمان ہوئے ، میاں نواز شریف اور مریم نواز کے وکلاء کی طرف سے سات دنوں کے لیے فیصلہ موخر کرنے کی استدعا کی گئی ، کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی گئی ، میاں نواز شریف کے وکلاء نے دلائل دیے کہ محترمہ چونکہ سیریس ہیں اور لندن ہارلے سٹریٹ میں زیر علاج ہیں اور انھیں مصنوعی سانس دی جا رہی ہے ، ان کے پھپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، عرصہ قبل انھیں دل کا دورہ بھی پڑا تھا ، اس حالت میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا ان کے پاس ہونا ضروری ہے، لہذا سات دن کے لیے فیصلہ موخر کیا جائے

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ وکیل صفائی کے پاس ایک موقع تھا فیصلہ موخر کروانے کا مگر انھوں نے وہ گنوا دیا ، جس دن عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ چھ جولائی کو فیصلہ سنایا جائے گا ، اس دن ان کی طرف سے کوئی درخواست نہیں آئی، عدالت نے چونکہ قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہوتا ہے اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ فیصلے کا اعلان کر کے اسے کچھ دنوں کے لیے موخر کیا جائے ، دوسرا انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ محترمہ چونکہ ونٹی لیٹر پر ہیں ، اگر وہ ہیں تو انھیں کیا پتہ کہ میرے پاس کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے ، شریف خاندان آتا، فیصلہ سن کے واپس چلا جاتا.

دلائل سننے کے بعد جج نے کہا کہ گیارہ بجے فیصلہ دیا جائے گا ، گیارہ بجے جج صاحب آئے اور انھوں نے آ کے فیصلہ سنایا کہ فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد کرتا ہوں لہذا کیس کا فیصلہ ساڑھے بارہ بجے سنایا جائےگا ، میں کمرہ عدالت سے باہر آیا اور ڈاکٹر آصف کرمانی جو کسی نہ کسی طرح عدالت کے اندر آنے میں کامیاب ہو گئے تھے ، ان سے گفت و شنید کرنے لگا، ان سے پوچھا کہ آج کوئی لیگی کارکن یا لیڈر عدالت کے باہر دور دور تک نظر نہیں آ رہا تو ان کا کہنا تھا کہ قیادت کی طرف سے احکامات تھے کہ عدالت کی طرف کوئی نہ جائے کیونکہ دفعہ 144 لگا ہوا ہے ، کہیں کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو جائے کہ انارکی پھیل جائے . ہم نے پوچھا کہ واقعی ایسے احکامات آئے تھے یا پھر کارکنوں نے آنے کی زحمت گوارا نہیں کی انھوں نے قسم کھا کے کہا کہ ایسے ہی احکامات تھے.

ساڑھے بارہ بجے کمرہ عدالت کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، جج صاحب نے کرسی انصاف پر آنا گوارا نہیں کیا، عدالتی اہلکار نے بتایا کہ فیصلہ اڑھائی بجے سنایا جائے گا ، اس اعلان کے بعد وہاں پر موجود میڈیا کے نمائندگان کو غصہ آنا فطری بات تھی مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے، چار و ناچار اڑھائی بجے کا انتظار ہونے لگا ، انتظار کی کیفیت کا ایک ایک لمحہ بھاری ہوتا ہے ، جو لوگ اس کیفیت سے گزرے ہوں وہ بخوبی جانتے ہیں .

نماز جمعہ کے بعد اڑھائی بجے کمرہ عدالت میں پہنچے تو ایک بار پھر کہا گیا کہ تین بجے فیصلہ سنایا جائے گا کیونکہ ابھی کچھ دیر ہے ، جج کے چیمبر میں عدالتی اہلکار کچھ فائلز لے کر گیا اور ساتھ مہریں بھی ، کچھ عجیب سی حرکات و سکنات ہو رہی تھیں.

تین بجے جج کرسی پر آ کر بیٹھے اور کہا کہ آدھا گھنٹہ مزید لگے گا کیونکہ فیصلے کے سو صفحات ہیں اور ان کی فوٹو کاپی کروانی ہیں کمرہ عدالت کے اندر لگی فوٹو سٹیٹ مشین میں شاید کچھ فنی خرابی آ گئی تھی ، جسے ایکسپرٹ دور کر رہے تھے ، جج نے میڈیا کے نمائندگان سے یہ کہا کہ اسے میڈیا پر نہ چلانا ، میڈیا نے تو مسالہ فروخت کرنا ہوتا ہے ، بھلا یہ خبر کیسے رہ سکتی تھی.

ہم ساڑھے تین بجے کا انتظار کرنے لگے کہ کمرہ عدالت کے اندر میری ملاقات ڈاکٹر طارق فضل چوہدری سے ہو گئی ، ان سے پوچھا اپنے ساتھ کتنے بندے لے آئے ہیں ، ہنسے اور کہنے لگے کہ صبح سے انتظامیہ کے ساتھ لڑائی کر رہا ہوں، دفعہ ایک سو چوالیس لگا ہوا ہے ، انتظامیہ اجازت نہیں دے رہی ، یہ سب فرار کے بہانے تھے دودھ پینے والے یہ مجنوں تھے.

ساڑھے تین بجے ہم لوگوں کو کمرہ عدالت کے اندر نہیں جانے دیا گیا کیونکہ جج نہیں چاہتا تھا کہ کوئی خبر میڈیا کی زنیت بنے ، ایک بار پھر فیصلہ سنانے کا وقت دے دیاگیا.

میں داخلی دروازے سے نکل رہا تھا کہ میرا بازو کسی نے پکڑ لیا دیکھا تو اسلام آباد سے ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے انجم عقیل تھے ، انہیں اہلکار اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے . میں بھی اس معاملے میں بے بس تھا چونکہ ان کی کوئی مدد کرنے سے قاصر تھا، ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کوئی ریلی لائے ہیں یا اکیلے تو وہ ہنسے اور کہنے لگے میں اور میرا ڈرائیور آئے ہیں.

میرا خیال تھا کہ اگر میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا تو اسلام آباد اور راولپنڈی میں اپنے محبوب قائد کے حق میں ریلیاں نکلیں گی، سڑکیں جام ہوں گی ، میں اس لیے پریشان تھا کہ چونکہ آج میرا ایم فل کا پیپر بھی تھا اور میرے آفس سے یونیورسٹی تک پہنچنے میں عام دنوں میں بائیک پر ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے مگر آج میں آفس سے یونیورسٹی میں بائیس منٹ میں پہنچا ، محبوب قائد کے حق میں ٹینکوں تلے لیٹنے والا کوئی نظر نہیں آیا، عدالت میں بھی نون لیگ کے سرکردہ لیڈر موجود نہ تھے ، جس سے مایوسی ہوئی کہ جو کہتے تھے میاں قدم بڑھاؤ ہم تمھارے ساتھ ہیں ، ان کے سائے بھی نظر نہیں آئے،

یہ کیس دس ماہ عدالت میں چلا، ایک سو سات سماعتیں ہوئی ، نواز شریف چوراسی مرتبہ، مریم نواز چونسٹھ مرتبہ اور کیپٹن صفدر چھہتر بار عدالت میں پیش ہوئے . نواز شریف کو سزا تو ہو چکی ہے اور ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے