گوجرانوالہ کامذہبی ووٹر اور متوقع نتائج

آج ہم آپ کو لاہور سے 60کلومیٹر دور، گوجر برداری کے نام سے منسوب پہلوانوں کے شہر جس کا رقبہ 3622مربع کلومیڑ، گوجرنوالہ کی چار تحصیلوں کامونکی، وزیر آباد، نوشہرہ ورکاں اور تحصیل گوجرانوالہ کی ’’سیاسی سیر‘‘ کراتے ہیں، یہاں 30پولیس اسٹیشن، 7بڑے شہر، پاکستان کا پانچواں بڑا ضلع اور پہلوانوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ گوجرنوالہ 50لاکھ 14ہزار 196مرد و خواتین پر مشتمل ہے، ووٹرکی تعداد 25لاکھ 63ہزار 172،جن میں 14لاکھ 68ہزار 300مرد، 10لاکھ 94ہزار 872 خواتین ہیں۔

یہاں این اے کے 6اور پی پی کے 14حلقے شامل ہیں۔ سینکڑوں مساجد کے شہر میں محکمہ اوقاف کی کل 11 مساجد، 7اہل سنت،3دیوبندی مسلک اور 1اہل حدیث کی مسجد اور ملازمین 25ہیں، جبکہ یہاں10مزارات محکمہ اوقاف کے کنڑول میں اور 15ملازمین ہیں۔ دھڑے بندی والے شہر کی برادریوں کی بات کی جائے، تو سید سنی، سید شیعہ، بٹ، خواجہ، انصاری، رحمانی، شیخ، جنجوعہ ، چدھڑ ، چٹھے، اعوان، کھوکھر، مغل، آرائیں، راجپوت، ورک ، گجر، وڑائچ، سندھو، رانا، خاں، رائو، منج، چیمے، لون، چنگریوں مڑھ، بھنڈر اور دیگر ذاتیں شامل ہیں۔ این اے 81سے ہمارے دوست کاشف صابر خان کے بھائی انجینئر خرم دستگیر خان کی کامیابی محتاط اندازے میں ممکن ہے۔

ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے مہر صدیق، ملی مسلم لیگ کے شاہد حمید شیخ اور تحریک لبیک کے محمد اسحاق گجر امیدوار ہیں۔ 2002کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار دیوبندی عالم دین قاضی حمیداللہ 39ہزار 181ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، دوسری طرف خوفناک رزلٹ مولانا صاحب کا اس وقت سامنے آیا، جب 2008میں ان کو صرف 26سو ووٹ ملے، وہ رہائشی کے پی کے تھے، اسی بنا پر وہ ملّا عمر کو دینی علوم بھی پڑھاتے رہے، گوجرانوالہ میں ایک لطیفہ بھی سروے کے دوران سامنے آیا کہ گوجرانوالہ میں کوئی خودکش حملہ نہیں ہوا، کیونکہ طالبان اس شہر کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جبکہ ان کے نیچے اہل سنت و جماعت جے یو پی کے مفتی غلام فرید ہزاروی جیت گئے تھے۔

گوجرانوالہ میں سالہا سال سے ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی جمعہ پڑھا رہے ہیں، انہوں نے جو کاغذات خرم دستگیر کے مقابلے میں جمع کرائے تھے، آج کی تاریخ تک تو ان کے کاغذات مسترد ہوچکے ہیں، لیکن اگر ان کے کاغذات منظور ہو جاتے ہیں تو وہ ایک بڑے پیمانے پر خرم دستگیر کے ووٹ کو متاثر کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک سے ناراضی کے بعد الگ سے اپنی جماعت بنائی ہے۔ ان کے بارے میں حلقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ خرم دستگیر پر مذہبی پریشر ڈالنے کے لئے ان کو لاہور سے لاکر میدان میں اتارا گیا ہے۔ خرم دستگیر کی یہ خوش بختی کہیں کہ ان کو شہری آبادی نصیب ہوئی ہے۔ یہ مسلم لیگ کے مضبوط ترین امیدوار ہیں لیکن مذہبی حالات کے پیش نظر وہ زیادہ بڑے جلسے نہیں کررہے بلکہ چھوٹی سطح کی میٹنگ کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔

این اے 81میں ہی شہر کی معروف مذہبی شخصیت نباض قوم مفتی ابو دائود محمد صادق رضوی کے بڑے صاحبزادے علامہ محمد دائود رضوی سے ملاقات کرنے پہنچا، جن کے والد گرامی نے پاکستان پیپلزپارٹی کے میاں منظور الحسن ڈار کے مقابلے میں 1970کے الیکشن میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر 17471ووٹ لئے تھے، وہ بھی عقائد کی بنیاد پر مذہبی راہنمائوں کو ووٹ دینے کا اعلان کر رہے تھے۔ این اے 79سے تحریک انصاف کے چوہدری احمد چھٹہ، مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر نثار چیمہ اور تحریک لبیک کے محمد فیاض گوندل بھی میدان میں موجود ہیں۔ این اے 80سے تحریک لبیک کے محمد احمد محمدی سیفی، ذبیح اللہ بلگن ملی مسلم لیگ، تحریک انصاف کے میاں محمد طارق اور مسلم لیگ ن کے چوہدری محمود بشیر ورک جو سابق وفاقی وزیر قانون ہیں، مقبال ہیں۔

پیر غلام فرید کی ناراضی بھی محمود بشیر ورک کے ساتھ چل رہی ہے جو مذہبی جماعتوں کا ووٹ بڑھا سکتی ہے۔ پیر غلام فرید کی صاحبزادی شازیہ سہیل مذہبی گھرانے کی خاتون ہونے کے باوجود روشن خیال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس خاتون کا گوجرانوالہ کی سیاست میں اہم رول اس لئے بھی ہے کہ مسلم لیگ ق کی سابق ایم پی اے ظل ہما عثمان کو ایک جنونی نے اس بنیاد پر قتل کر دیا تھا کہ وہ عورت ہونے کے باجود سیاست کیوں کر رہی ہے تو انہوں نے قابل ذکرکردار ادا کرتے ہوئے اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ امن کی عالمی تنظیم یونیورسل پیس فیڈریشن امریکہ نے ان کو امن کا سفیر بھی مقرر کر رکھا ہے۔ شازیہ سہیل کی سیاسی خدمات کو گوجرانوالہ میں ضرب المثل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کامونکی پی پی 61سے یاسر عرفات رامے، تحریک لبیک نے مضبوط امیدوار اتارا ہے، مقابلے میں احسان ورک پی ٹی آئی اور ن لیگ کے رانا اختر خان ہیں، جنہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 14ہزار 618ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہ آرائیں برداری سے ہیں۔

کامونکی میں مذہبی ووٹر بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ اس حلقہ میں اہل سنت مساجد کی تعداد 170، اہل حدیث 20، دیوبندی 15 اور اہل تشیع کی مساجد 5ہیں۔ کامونکی میں ملک گیر سطح کی پہچان رکھنے والے معروف دینی، علمی، سماجی اور ابھرتی نوجوان شخصیت صاحبزادہ عثمان علی جلالی، جن کے والد شیخ الحدیث مفتی محمد اشرف جلالی نے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر 16ہزار ووٹ لئے تھے۔ اب ان کی زوجہ محترمہ حافظہ رقیہ اشرف جلالی تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مخصوص نشست سے حصہ لے رہی ہیں۔ اگر رامے صاحب کی حمایت میں پیر آف چشتیاں آباد کامونکی جو ماضی میں ایم پی اے بھی رہ چکے ہیں، پیر جمیل الرحمٰن چشتی تحریک لبیک کی حمایت کردیں، تو یہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔

83سے پی ٹی آئی کے رانا نذیر پینل کا پلڑا ن لیگ کے چوہدری ذوالفقار بھنڈر سے بھاری ہے۔ ان کے نیچے پی پی 59سے ڈاکٹر سہیل ظفر چیمہ اور 60سے ان کے والد چوہدری ظفراللہ چیمہ (پی ٹی آئی)ہیں۔ ان کے بیٹے رضوان ظفر چیمہ سے ملاقات ہوئی تو وہ اس بات پر انتہائی خوش تھے کہ ان کے مقابلے میں تحریک لبیک کا کوئی امیدوار نہیں ہے، اس لئے انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ان کو علاقے کی معروف مذہبی شخصیت مفتی ابوبکر اعوان ایڈووکیٹ کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ 82این اے مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر عثمان ابراہیم، تحریک انصاف کے علی اشرف مغل اور تحریک لبیک کے شہباز نثار خاں سے سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اس کے علاوہ تحریک لبیک کی جانب سے پی پی 57سے حاجی محمد اکبر سیفی کی تشہیری مہم بہت موثر ہے۔ ان کے مقابلے میں اشرف علی انصاری ن لیگ اور محمد علی مہر تحریک انصاف کی جانب سے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان پیپلزپارٹی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر بھی لوگوں سے ووٹ نہیں مانگ سکی۔ یاد رہے این اے اور پی پی میں ووٹرز کی آنکھ مچولی جاری ہے، تمام حلقوں سے امیدوار اپنی جگہ خوش ہے، لیکن ووٹر پہلوان 25جولائی کو اپنے امیدواروں کے ساتھ کیا کرتا ہے، اس کا علم 26جولائی کی صبح بتائے گی کہ ’’بلا‘‘ نے’’شیر‘‘ کو مارمار کر بے ہوش کر دیا ہے، یا پھر ’’بلا‘‘میں ’’شیر‘‘سے کشتی کے دوران سوراخ ہو چکے ہیں۔

سروے کے دوران واپڈا ٹائون کے رہائشیوں کے علاوہ شہر کا کوئی فرد مجھے سہولیات کے اعتبار سے مطمئن نہیں ملا۔ جیو نیوز کے رپورٹر رانا انصر کے لئے ہر ادارہ اور جماعت کی طرف سے خیر کے کلمات سننے کو ملے، وہ جیو نیوز اور جنگ گروپ کے لئے اعزازکی بات ہے ۔ادھر لاہور میں مسلم لیگ ن نے پی پی 158سے میاں نوید انجم کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ این اے 129سے ایاز صادق کی جیت اور عبدالعلیم خان کی شکست کو یقینی بنانے کے لئے مقبول مذہبی و سیاسی شخصیت کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
’’آج جمعہ ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفیٰﷺ 80بار ضرور پڑھ لیجئے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے