الیکشن اورکراچی کامذہبی ووٹر

تین دن کراچی میں قیام رہا، کراچی کے بہترین ہوٹل سے نکل کر کراچی کی تنگ گلیوں، محلوں میں روزہ کی حالت میں جانا انتہائی مشکل کام تھا، لیکن میں نے سوچا کہ کراچی کے دورے سے فائدہ حاصل کیا جاسکے تاکہ ہوٹل کی ٹھنڈی ہوائوں میں دوست، احباب اور مریدین کی الیکشن کے بارے دی گئی معلومات کا حقیقی معنوں میں پوسٹ مارٹم کیا جائے اور کراچی میں موجود ہزاروں مساجد، سینکڑوں مدارس اور بے شمار روحانی درگاہوں سے منسلک مریدین سے حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی کراچی مذہبی ووٹر پر مشتمل حاصل شدہ تازہ ترین صورت حال سے اپنے قارئین کو آگاہ کر سکوں۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم کو داخلی تقسیم نقصان پہنچائے گی، 25ملین آبادی والے شہر کی اردو اسپیکنگ آبادی میں مذہبی ووٹر کی اچھی خاصی تعداد ہے۔

میری معلومات کے مطابق ایم کیو ایم کراچی میں اپنا حقیقی مخالف پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلزپارٹی کو سمجھتی ہے، لیکن اب وہ کراچی کی باقی جماعتوں کی طرح تحریک لبیک کو اس لحاظ سے خطرہ سمجھ رہی ہے جو سادہ مذہبی ووٹ ان کو ملا ہوا تھا، وہ اب ان سے دور ہوچکا ہے، مین اسٹریم پارٹیاں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور پاکستان سنی تحریک جیسی مذہبی جماعتیں بھی تحریک لبیک کو کراچی میں اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ سمجھ رہی ہیں،دوسری طرف دیوبندی وہ ووٹر جس کی خاص دلچسپی ختم نبوتؐ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، وہ خود کو تحریک لبیک کو ووٹ دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ختم نبوتؐ کے ایشو میں خادم حسین رضوی نے سخت پالیسی کی بنیاد پر ہی یہ کیس جیتا ہے جبکہ باقی مذہبی جماعتیں اس مسئلہ پر خاموش رہی ہیں۔

ہاں البتہ اس کے امیدواروں کی کامیابی مجھے مشکل نظر آتی ہے لیکن چھٹی حس کہنے پر مجبور ہے کہ ملک سے ایک دو سیٹیں یہ حاصل بھی کر سکتی ہے۔ کراچی کا ایسا ووٹر جس کا تعلق پیر آف پگاڑا، مخدوم امین فہیم ہالہ شریف کی سروری جماعت، منگھو پیر، عبداللہ شاہ غازی یا شاہ محمود قریشی کے آستانے سے ہے، وہ زیادہ نہیں اور جتنا ووٹ بینک کراچی میں رہنے والا ہے وہ الیکشن کے دن ووٹ اپنے آبائی علاقوں میں جا کر ڈالتا ہے، ہاں البتہ نوجوان ووٹر درگاہوں سے منسلک تو ہے لیکن اب وہ روحانی درگاہوں کے اشاروں پر چلنے سے نکل چکا ہے کیونکہ ایسے ووٹر کے لئے درگاہوں نے کبھی کوئی پالیسی بنائی ہی نہیں۔ کراچی کی مذہبی جماعتیں کراچی کو مال غنیمت سمجھتی ہیں۔ کراچی کی گلی گلی محلہ محلہ پھرنے سے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کراچی کا مذہبی ووٹر بھی ملک کے باقی ووٹر کی طرح منظم نہیں، اس سے ہی باقی جماعتیں فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جبکہ کراچی کا ووٹر تین ذہنوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

اول ختم نبوتؐ، ممتاز قادری کی شہادت والا ووٹ بینک، پڑھا لکھا ووٹر جماعت اسلامی ووٹر جبکہ اوپن مائنڈ ووٹر۔ حالیہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان بھی کراچی میں کیا گیا۔ خیال ہے، مذہبی جماعتوں سے اگر مذہبی تفریق ختم ہو جائے تو کراچی کے کل ووٹ کا 15فیصد انہیں مل سکتا ہے۔ لیکن اگر مذہبی جماعتیں اپنا الگ الگ مذہبی بیانیہ ووٹر کو سمجھانے کے لئے کامیاب ہو گئیں، تو پھر کراچی میں تشدد کے امکانات بھی موجود ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے بڑے لیڈر تو ہمیشہ برسراقتدار جماعتوں کے آشیانہ میں پناہ تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں، ہاں البتہ نچلی سطح پر ان کا ووٹر شاطر ہو چکا ہے اور وہ اس الیکشن میں اپنی مرضی کرے گا۔ پورے ملک کی طرح کراچی کا ووٹر مذہبی جماعتوں سے اس لئے بھی پریشان رہتا ہے کہ ان جماعتوں کا مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے نہ کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد اسلام نافذ کرنا اور نہ ہی اپنے مسلکی اختلافات کو ختم کرنا ہے۔

ہاں! مذہبی ووٹر مذہبی جماعتوں کو کھل کر اس لئے بھی ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہے کہ کراچی کی روشنیوں کو کوئی مذہبی جماعت واپس نہیں لا سکتی۔ کراچی کے مضافاتی مذہبی ووٹرز کچھ بھی اپنے امیدواروں کے ساتھ کر سکتے ہیں، 2002 میں متحدہ مجلس عمل نے ملک بھر سے ریکارڈ ووٹ 3181483 لئے تھے جس کا تناسب18.54 فی صد بنتا ہے۔ مجھے ایک نوجوان نے یہاں تک کہا کہ ہم کیسے پرامن ووٹ سے تکفیریوں کو طاقت فراہم کر سکتے ہیں، مذہبی ووٹر کرے بھی تو کیا کرے، جب مولانا سمیع الحق جیسا لیڈر یہ کہے کہ میں متحدہ مجلس کے گناہ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ سنی تحریک بھی اپنے باقی ماندہ دن گزارنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن ان کے تمام بندے تحریک لبیک کھینچ چکی ہے۔ مولانا اورنگ زیب فاروقی بھی اس طرح متحرک نہیں رہے، جس طرح کبھی ہوا کرتے تھے۔

کراچی میں یہ ضروری سمجھا، کہ کوئی ایسا پرانا سیاسی مذہبی رہنما مل جائے، جس سے 70سالہ کراچی کے مذہبی ووٹر کے بارے بات کی جا سکے، مجھے سابق وفاقی وزیر اور نظام مصطفیٰ پارٹی کے صدر حاجی محمد حنیف طیب مل گئے، ان کے گھر میں حاضری کا شرف ملا ،وہ چھوٹے گھر کے چھوٹے کمرے میں چٹائی پر بھی نہیں، بلکہ فرش پر لیٹے ہوئے، مجھے تفصیل سے بتاتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ 1970میں جمعیت علمائے پاکستان کراچی سے تین نشستوں سے جیتی، جس میں شاہ احمد نورانی مقابلہ میں دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلزپارٹی کے سوداگر درویش، تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے پیر محمد قالیا تھے.

دوسری سیٹ علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے جیتی، مقابلے میں دوسرے نمبر پر پی پی پی کے جنرل محمد اکبر اور تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی کے سید ذاکر علی تھے، تیسری سیٹ مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے جیتی تھی اور انہوں نے اپنے حق میں یہ فیصلہ کورٹ سے کرایا تھا، آدھی مدت پہلے جماعت اسلامی کے محمد اعظم فاروقی نے پوری کی تھی جبکہ سندھ اسمبلی میں ایم پی اے کی تعداد کی بنیاد پر اپوزیشن لیڈر پروفیسر شاہ فریدالحق تھے، اسی طرح انہوں نے یہ بھی بتایا کہ1977 میں پاکستان قومی اتحاد میں، میں نے یعنی حاجی محمد حنیف طیب سیٹ جیتی، دوسرے نمبر پرپی پی پی کے حاجی سلیمان گھنچی، پیر شاہ فرید الحق، مولانا محمد حسین حقانی نے جیتی۔

ان کے بقول 1977کے الیکشن سے چند دن پہلے اس وقت کے چیف منسٹر غلام مصطفیٰ جتوئی نے ہمیں کھانے کی میز پر بلایا اور کہا کہ کراچی کی گیارہ نشستوں میں سے 9پی پی پی جیت جائے گی اورا ٓپ دو نشستیں حاصل کر سکیں گے، اس موقع پر اپنے زمانے کے معروف و مقبول، سیاسی بصیرت و ذہن اور وسیع صحافتی تعلقات رکھنے والے ظہور الحسن بھوپالی نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہم 9نشستیں حاصل کریں گے اور پی پی پی دو حاصل کر سکے گی، یوں جیسے مولانا بھوپالی نے کہا تھا، ویسے ہی ہوا، جیسا جتوئی صاحب نے کہا تھا ویسا نہ ہوا۔

پھر انہوں نے 1985کے غیرجماعتی الیکشن کا بتایا کہ ہم نے اس الیکشن میں بھی 9نشستیں حاصل کی تھی، جس میں حاجی محمد حنیف طیب، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری، شاہ تراب الحق قادری، مولانا محمد عثمان نوری، قمر النساء قمر جو ظہور الحسن بھوپالی کی پھوپھو تھیں اور دیگر شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ نظام مصطفیٰ پارٹی کی صرف حمایت کی بنا پر دو وفاقی وزیر بنائے گئے، جن میں زین نورانی وزیر خارجہ برائے مملکت، میر نواز مروت، وزیر مملکت قانون و پارلیمانی اور دو ایم این اے بن قمر قطب الدین خان (جو ابھی بھی حیات ہیں) اور غلام محمد چشتی بن گئے۔ پھر 1988میں ایم کیو ایم نے کراچی کی تباہی میں جہاں بھرپور کردار ادا کیا وہیں پر مذہبی جماعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بعد میں جو کچھ ہوا اورجو آج تک ہو چکا ہے، وہ آپ کے علم میں ہے۔ کراچی کے تخت کا فیصلہ 25جولائی کا دن اس صورت میں ہو سکے گا جب پرامن ماحول میں الیکشن کا انعقاد ممکن ہوا، جوکہ اداروں کے لئے انتہائی مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ہر دکھ درد کی دوا بس درود مصطفیٰ ﷺ80بار پڑھ لینا اور پورے تیس روزے ہونے کی دعا کر دینا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے