جعلی ووٹوں سے ڈریں

عام انتخابات میں 17 روز باقی ہیں۔ اس وقت سب سے بڑی جماعت تحریکِ انصاف ہے اور تجربہ کار جماعت پیپلز پارٹی۔ 2013ء میں ن لیگ نے جبری اکثریت حاصل کر کے حکومت تو قائم کر لی‘ لیکن کسی کو بھی اس پر یقین نہیں تھا کہ یہ اکثریت حقیقی ہے۔ سیاسی شعور رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا تھا کہ انتخابات مصنوعی تھے اور بے تحاشہ دھاندلی کا نتیجہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ سال پورے ہو گئے‘ لیکن عوام کے ذہنوں نے نتائج قبول نہیں کئے۔ گزشتہ انتخابات میں عوام نے باور کر لیا تھا کہ ان پر جعلی نتائج مسلط کئے گئے ہیں۔

جن دو بڑی پارٹیوں پر شکست مسلط کی گئی‘ انہیں کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک ڈرامہ جو سب کی نظروں کے سامنے تھا‘ ہر باشعور شہری نے اس کی حقیقت سمجھ لی تھی۔ جس پارٹی کو کامیاب ظاہر کیا گیا تھا‘ اس کے سربراہ نے خود ہی پول کھول دیا۔ ابھی انتخابی نتائج پوری طرح سامنے بھی نہیں آئے تھے کہ کامیاب دکھائی گئی پارٹی کے سربراہ نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے سے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ ہم کامیاب ہو چکے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے جس پارٹی کو کامیاب دکھایا گیا‘ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بھی شخص‘ سرکاری نتائج قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔

ووٹوں کی گنتی کے آخری لمحات میں‘ سچائی ہر ووٹر کے سامنے آ چکی تھی۔ وہ غیر معمولی اعلان جس میں پورا راز کھول دیا گیا تھا‘ ایک ایک ووٹر نے اسے سمجھ لیا۔ ن لیگ کے سربراہ ووٹوں کی گنتی کے دوران ہی بھاگم بھاگ اپنے علاقے میں پہنچ گئے اور سارے سرگرم کارکنوں اور ساتھیوں کو اشارہ دے دیا کہ دھاندلی مکمل ہو گئی ہے۔ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کے لوگوں نے اس دھاندلی پر شور مچایا‘ لیکن سرکاری اور نجی میڈیا پر ن لیگ کا قبضہ تھا۔

اس لئے حزبِ اختلاف کی آواز کسی کو سنائی نہ دی۔ ن لیگ کے سربراہ خود ہی اپنے اعلان کو دہرا رہے تھے کہ ” ہم کامیاب ہو چکے ہیں‘‘۔ اسے باضابطہ اعلان سمجھا گیا۔ اور پھر چل سو چل۔ کامیابی پر کامیابی۔ ووٹوں کی گنتی جاری تھی اور ”کامیابی‘‘ بھی جاری تھی۔ جہاں سارا میڈیا ایک ہی راگ سنا رہا ہو تو اس کے آگے کس کی چلتی ہے؟ سب سے زیادہ نقصان تحریکِ انصاف کا ہوا۔ اس کا ہر امیدوار اپنی کامیابی پر اصرار کر رہا تھا کہ ہم جیت گئے۔ آخر میں جب گنتی مکمل ہوئی‘ تو بیلٹ پیپر کے ڈبوں کے ڈبے کھول کر دعوے کئے گئے کہ ”ن لیگ جیت گئی۔ ن لیگ جیت گئی‘‘۔

میڈیا کی آواز سے محروم اپوزیشن اپنی ساری طاقت استعمال کر کے بھی کچھ نہ کر سکی۔ یہ حربہ جرمنی میں نازی پارٹی استعمال کر چکی تھی۔ پاکستان میں یہ ترکیب پہلی بار نہیں دہرائی گئی تھی۔ سب سے پہلے یہ تجربہ ایوب آمریت کے دور میں کیا گیا۔ ”فوجی آمریت‘‘ نے یہ تجربہ بار بار دہرایا‘ مگر اس وقت عوام پوری طرح ”چارج‘‘ نہیں تھے۔ پھر جس آمر کا بھی دائو لگا‘ اس نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے تمام حربے‘ پوری ریاستی طاقت کے ساتھ دہرائے۔ جن لوگوں کو اس دور کے انتخابات کا تجربہ ہے‘ انہیں اچھی طرح یاد ہو گا کہ ”انتخابی دھاندلی‘‘ فوجی آمریت کی پیداوار تھی۔ پاکستان میں کوئی یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک فوجی آمر کے سامنے قائد اعظمؒ کی سگی بہن ہار گئیں۔ حکومت خود‘ خوف سے کانپ رہی تھی کہ ہم نے جبر کے حربے استعمال کر کے‘ مادر ملت اور قبر میں پڑے قائد اعظمؒ کو جعل سازوں کے سامنے بے بس کر دیا۔

آج میں ایک اور ”جھانسہ‘‘ بے نقاب کر رہا ہوں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں تمام مسلح فورسز کو یکجا کر کے‘ ایسی دھاندلی مچائی کہ اس زمانے کے لوگ آج بھی اسے یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں۔ پہلا تجربہ یہ تھا کہ ایک باوردی جنرل نے سیاسی جان نثاروں کو کچل کے رکھ دیا۔ پاکستانی ووٹروں کو جھانسے پہ جھانسہ دیا جا رہا ہے اور اب تو جعلی ووٹنگ کا جھرلوں ایسے چلایا جا رہا ہے کہ سرکاری پارٹی جعل سازی کر کے جیت بھی جائے تو عوام یقین نہیں کرتے۔ میں اس بات پر زیادہ فکر مند ہوں کہ عوام کی اکثریت سے کوئی پارٹی کامیاب ہو بھی جائے تو حکومتی پارٹی کا ذہن اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔

گزشتہ الیکشن میں حاصل کی گئی جعلی اکثریت کو عوام کے ذہنوں نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ نواز شریف جیل میں بیٹھ کر بھی الیکشن میں اپنی کامیابی کا دعویٰ کر دیں‘ تو کوئی اسے چیلنج نہیں کرے گا؟ اگر اس الیکشن میں خواجہ سعد رفیق اپنی انتخابی کامیابی کا دعویٰ کر دیں‘ تو لوگ اسے بھی مان جائیں گے۔ پہلے ووٹر جھرلوں سے ڈرا کرتے تھے اور اب لوہے کے چنوں سے ڈرتے ہیں۔ حکمران جوڑی نے سٹیل کے چنے ایسے بھونے ہیں کہ یہ دھمکی سن کر پولنگ بوتھ پر پہنچا ہوا ووٹر‘ بغل میں جوتے دبا کر یوں بھاگتا ہے‘ جیسے سب سے بھاری بم گرا دیا گیا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے