غزل دائرہ اسلام سے خارج ہے!

شاعری میں غزل کی صنف خود مجھے بھی بری طرح کھٹکا کرتی تھی کیونکہ اس میں خواتین کے حسن و جمال کے تذکرے ہوتے ہیں بلکہ غزل کے شاعروں نے تو پردہ دار بیبیوں تک کو نہیں بخشا اور اس طرح کے شعر کہے کہ

داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

چنانچہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ یا خدا، اپنا کوئی ایسا بندہ بھیج جو ان شعراء کا ’’مکو ٹھپے‘‘ سو خدا نے میری سنی اور ایک صاحب کو یہ توفیق دی کہ وہ ساری کلاسیکی اور آج کی غزل پر جھاڑو پھیریں اور یوں شاعری کے صحن کی صفائی کریں۔ میں نے ان صاحب کا مضمون ’’شریف خواتین تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں‘‘ کے عنوان سے ایک اخبار میں مضمون پڑھا ہے۔

موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’بلاشبہ غزل دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘ نیز یہ کہ ’’یہ تغزل ہی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اپنی تعریف سننے کے لئے بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں‘‘ چنانچہ موصوف نے ’’نیک سیرت عورتوں کا دینی فریضہ‘‘ یہ بتایا ہے کہ ’’وہ تغزل کی اس غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں‘‘ موصوف کے اس نقطہ نظر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ چونکہ انہیں خود شعر کہنا نہیں آتا، لہٰذا انہوں نے تمام شاعروں کے لئے اسے حرام قرار دے دیا ہے کیونکہ انہوں نے مضمون کے شروع ہی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ وہ کبھی شعر کہا کرتے تھے مگر احسان دانش مرحوم نے انہیں ’’ایک خاص نصیحت‘‘ فرمائی کہ فن شاعری میں اصلاح کی نسبت مجھے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے یہ بھی نشاندہی کی کہ اگر مطالعہ خوب ہو جائے تو مجھے شعر گوئی میں کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

احسان صاحب کا اشارہ غالباً اس طرف تھا کہ وہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کریں، مگر اس کی بجائے انہوں نے شاعری کے عدم جواز کے لئے شرعی دلائل ڈھونڈنے کی خاطر مطالعے کا آغاز کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ قرآن و حدیث میں شاعری کی واضح ممانعت نہیں ہے، تاہم یہ جو غزل کی صنف ہے یہ بہرحال دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ اس میں ’’عورتوں سے باتیں‘‘کی جاتی ہیں، لہٰذا انہوں نے شعر گوئی ترک کی اور ’’شریف خواتین‘‘ سے کہا کہ وہ ان کی ہم نوائی میں تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں۔

جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں کہا کہ خود مجھے بھی یہ غزل کی صنف زہر لگتی ہے کیونکہ اس میں صنف نازک کے حسن و جمال کا بیان ہوتا ہے۔ بلکہ اس کی آڑ میں جو گل کھلائے جاتے ہیں وہ بھی میرے علم میں ہیں۔ میرے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گے، چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی جمعیت کی ہائی کمان کے سامنے ہوئی اور کہا گیا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ’’آپ گزشتہ روز ایک بہن کے ساتھ فلم دیکھتے پائے گئے ہیں۔‘‘

میرے دوست نے اس کے جواب میں اپنی صفائی پیش کی اور کہا ’’جناب میری ایک عزیزہ فیصل آباد سے آئی تھیں، وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا تھا‘‘ یہ سن کر ہائی کمان نے کہا ’’ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے‘‘ اس پر میرے دوست نے کہا ’’نظم اپنی جگہ، مگر آخر غزل بھی تو کوئی چیز ہے‘‘ خیر یہ تو یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی طفلانہ شوخی تھی مگر غزل کا شاعر خواہ باریش ہو اور عمر کی کسی بھی اسٹیج پر ہو، حسن و جمال سے منہ نہیں موڑتا! اب اپنے مولانا حسرت موہانی ہی کو دیکھیں، برصغیر کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنمائوں میں سے تھے شرعی حلیہ شرعی وضع قطع پابند صوم و صلوۃ متقی اور پارسا، باقاعدگی سے گیارہویں شریف دینے والے مگر جب غزل کہتے تھے تو

کیوں شام ہی سے پھر وہ چھڑا کر چلے تھے ہاتھ
دکھتی رہی جو ان کی کلائی تمام شب

قسم کی غزلیں کہتے تھے، چنانچہ ایک بار مولانا سے پوچھا گیا کہ غزل میں تین رنگ ہوتے ہیں ایک فلسفیانہ، ایک عاشقانہ اور ایک فاسقانہ، آپ کس انداز کی غزل کہتے ہیں؟ مولانا نے اپنی مخصوص باریک سی آواز میں جواب دیا ’’فاسقانہ‘‘ اور اس رنگ سخن کی جھلک تو کہیں کہیں جماعت اسلامی کے مولانا ماہر القادری مرحوم کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔

میں یہ سطور یہاں تک لکھ چکا تھا کہ خیال آیا میں کس کام میں پڑ گیا ہوں، کیونکہ ادھر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی غزل پر کیا منحصر ہے اردو فارسی کی بیشتر شاعری موصوف اور میرے قائم کردہ اخلاقی معیار کے لحاظ سے دریا برد کرنے کے قابل ہے اور اکیلے مولانا حسرت موہانی کا کیا ذکر، ادھر تو بڑے بڑے علماء صلحاء، صوفیاء اور اولیاء نے بھی شعروں میں ایسی ایسی باتیں کسی ہیں کہ میرے اور میرے ناکام شاعر دوست جیسے چھوئی موئی لوگوں کے کانوں کی لویں سرخ ہو جاتی ہیں چنانچہ حضرت امیر خسرو مولانا روم اور شیخ سعدی جیسے اکابر کی شاعری تو شاعری ان کئی حکایات ان دنوں بھی چھپ چھپا کر پڑھنی پڑتی ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال بھی ؎

نہ آتے بھلا اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

جیسی غزلیں ’’اور۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ ایسی نظمیں کہتے رہے اور یہ سلسلہ جاریہ ابھی تک جاری ہے چنانچہ ایک بار خانقاہ گولڑہ شریف کے صاحب زادہ نصیر الدین نصیر مرحوم و مغفور غریب خانے پر تشریف لائے تو انہوں نے جوش کے رنگ میں کہی ہوئی اپنی ایک نظم ’’گلبدنی‘‘ کے چند بند سنائےاور یہ بند سن کر حسب معمول میرے کان کی لویں ایک بار پھر سرخ ہو گئیں میں اور میرے متذکرہ دونوں بہت شرمیلے ہیں۔

تاہم اس کالم میں مقصود خود کو شرمیلا اور کسی دوسرے کو شرمیلا ٹیگور ثابت کرنا نہیں، بلکہ صرف اپنے متذکرہ دوست کو اپنی حمایت کا یقین دلانا ہے اور ان کی ہمت بندھانی ہے کہ وہ غزل کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں تاکہ باقی شریف خواتین بھی ان کی ہم نوائی میں تغزل کے خلاف آواز اٹھائیں۔ البتہ اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ یہ ہے کہ ماضی اور حال میں انتہاء درجے کی شریف خواتین خود غزل کہتی رہی ہیں۔

مثلاً اورنگ زیب عالمگیر کی ایک پردہ نشین بیٹی غزل کی نہایت خوبصورت شاعرہ تھیں، میر کی صاحب زادی غزل کہتی تھیں اور پھر ادا جعفری اور زہرہ نگاہ تک کتنی ہی نیک اور شریف بیٹیاں اس جرم میں ملوث رہی ہیں سو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تحریک کی مخالفت سب سے پہلے شریف بیبیوں ہی کی طرف سے ہو۔ اگر ایسا ہوا تو بھی میں اصغر بن ابراہیم کے ساتھ ہوں کیونکہ میں ان شاعروں سے بہت تنگ آیا ہوا ہوں جو آج کے اس سائنسی دور میں بھی انسان اور اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے ہیں چنانچہ موصوف کو اپنی تحریک کے سلسلے میں شریف بیبیوں کی حمایت حاصل ہو نہ ہو، تو بھی وہ دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ مجھ ایسا شریف مرد بہرحال ان کے ساتھ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے