سانوں کیہہ

بابا عبیر ابو ذری مرحوم کہا کرتے تھے ؎

پلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کیہہ
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کیہہ

اور آج فقیر بے زری کہتا ہے کہ ’’سانوں کیہہ‘‘
جب عوام خان کی سنی نہیں جاتی، تو وہ بھی کہتا ہے کہ ’’سانوں کیہہ‘‘ ہوائیں مخالف ہو جاتی ہیں، فیصلے اس کے خلاف آتے ہیں اور اس کے بڑے بھائی انصاف خان اور خاندان کے روح رواں عسکری خان عین قانون و انصاف کے مطابق مگر عوام خان کی مرضی کے خلاف مسلسل چلتے رہتے ہیں تو چھوٹا بھائی کچھ اور تو نہیں کہہ سکتا، منہ بسور کر پنجابی میں کہتا ہے ’’سانوں کیہہ ‘‘ یعنی ہمارا بس تو چلتا نہیں سو ہمیں کیا؟‘‘

عوام خان کا حال ان دنوں پتلا ہے دونوں بڑے بھائی متحرک اور طاقتور ہیں اور اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ عوام خان کے ٹیڑھ کو درست کر کے چھوڑنا ہے اور عوام خان کے لاڈلے بیٹوں ’’میاں جمہور‘‘ اور ’’سوتیلے زرداری‘‘ کو ایسا سبق سکھانا ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی آنکھیں دکھانے سے ہمیشہ کے لئے توبہ کر جائیں۔ عوام خان نے کبوتر سے بہت کچھ سیکھا ہے اسی لئے جب خطرہ قریب آتا ہے تو عوام خان آنکھیں موند کر کہتا ہے ’’سانوں کیہہ‘‘۔

عوام خان بھی کیا کرے کبھی فرنگی آئے تو کبھی مغل، کبھی کسی نے ظلم ڈھایا تو کبھی کسی نے رزق چھینا۔ بولنے، کہنے اور کچھ کرنے کی آزادی بار بار سلب ہوتی رہی عوام خان پر جب بھی مصائب کا انبار لگتا ہے اور بچنے کا کوئی چارہ نہیں رہتا تو وہ شتر مرغ کی طرح اپنی لمبی گردن ریت میں چھپا کر کہتا ہے سانوں کیہہ؟ مجبور و بے کس عوام خان اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے؟

عوام خان مایوس ہو کر بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے امید بندھتی ہے ٹوٹتی ہے اور پھر جب امید بالکل ختم ہو جاتی ہے تو عوام خان پھر سے ’’سانوں کیہہ‘‘ کہتا ہے کندھے اچکاتا ہے اور پھر سے موہنجودڑو کا پروہت تضادستان کا لسی نوش اور مغلیہ سلطنت کا افیونچی شہزادہ بن جاتا ہے۔
ایسے میں عوام خان کی بلا سے کوئی جیتے یا ہارے کوئی سزا پائے یا بچ جائے کوئی جیل جائے یا آزاد پھرے کسی کو حکومت سے نکالا جائے یا حکومت دلائی جائے عوام خان کا ہر موقع پر جواب یہی ہوتا ہے ’’سانوں کیہہ‘‘ اور کبھی اگر وہ فلسفیانہ رنگ اختیار کرے تو کہتا ہے ہوتا تو وہی ہوتا ہے جو قسمت کو منظور ہوتا ہے کوشش کرنے سے مزاحمت کرنے یا جیل جانے سے حالات نہیں بدلتے اسی لئے ’’سانوں کیہہ‘‘ کہہ کر ان پیچیدہ مسائل سے جان چھڑا لینی چاہئے۔

عوام خان کو جب بڑے فیصلے کا پتہ چلا تو اپنی موندی ہوئی آنکھیں کھولیں جھرجھری سی لی اور کہا پہلے کونسے میری پسند کے حاکم تھے جو اب میری پسند کے آ جائیں گے۔ الیکشن ہو یا سلیکشن، سانوں کیہہ۔ پہلے بھی بہت الیکشن ہوئے آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ہمیں اس سے کیا؟ اور ہمیں اس کی پروا کیا؟

عوام خان کے دو سابق لیڈروں میاں جمہور اور سوتیلے زردار کا تو ذکر ہو چکا اب اصلی ’’لاڈلے خان‘‘ کی بات کر لیتے ہیں اسے یہ کریڈٹ تو بہرحال حاصل ہے کہ اس نے نوجوان عوام خانوں کی سیاست سے بیگانگی ختم کی، مڈل کلاس کو ڈرائنگ روم کی گفتگو سے نکال کر عملی سیاست میں متحرک ہونے کی طرف راغب کیا۔ البتہ خدشہ یہ ہے کہ لاڈلے خان کو اقتدار ملنے کے بعد اس کا حشر بھی وہی نہ ہو جو عوام خان کے باقی نمائندوں کا ہوتا رہا۔ اگر ایسا ہوا تو عوام خان پر ایک قومی بیگانگی اور ڈیپریشن کا لمبا دور آئے گا عوام خان غیر سیاسی ہو جائے گا ،آنکھیں نیم بند کر لے گا اور بار بار کہے گا ’’سانوں کیہہ‘‘۔

امریکہ کے ایک بلاگر مارک مان سن نے اچھی زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے۔

اس کتاب کو نیو یارک ٹائمز نے بیسٹ سیلر قرار دیا ہے، اس کتاب میں بھی یہی فلسفہ درج ہے یعنی ’’سانوں کیہہ‘‘ والا رویہ اپنائیں اور خوش و خرم زندگی گزاریں مصنف کے مطابق طاقتور، خوشحال اور خوش و خرم لوگ برے حالات اور مشکلات سے اچھی طرح نمٹتے ہیں مان سن کے خیال میں عوام خان غلطیوں اور خامیوں کے پتلے ہیں ان سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہے کہ ان میں سے ہر کوئی غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے عوام خان ہی میں سے لوگ ہارتے اور جیتتے ہیں اکثر عوام خانوں کی ہار انصاف پر مبنی نہیں ہوتی نہ اس میں ان کی اپنی غلطی ہوتی ہے مصنف کہتا ہے کہ آپ کو اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا علم ہونا چاہئے، جب عوام خان اپنے اردگرد پھیلے خطرات اور اپنی حدود کو پوری طرح پہچان لیتا ہے تو پھر وہ’’ سانوں کیہہ‘‘ کہہ کر ہی اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔

مارک کے مشورے اپنی جگہ مگر عوام خان کیا کرے اگر راولپنڈی میں (ریٹائرڈ) کیپٹن صفدر گرفتاری دینے آ جائے تو اس کے پاس کیا چارہ ہے کہ وہ دو چار نعرے لگائے جلوس کے پیچھے بھاگے یا جیپ کو کھٹکھٹائے۔ جمعہ کو اگر نواز شریف اور مریم لاہور ایئر پورٹ پر اتریں تو لاہوری عوام خان کیا کرے؟

سویا رہے یا جھرجھری لے کر نعرے لگائے مجبوری یہ ہے کہ عوام خان کو بار بار شکست ہوتی رہی ہے مگر جمہوریت ایک ایسی پری ہے کہ جس نے ایک بار اسے دیکھ لیا وہ اسے بار بار دیکھنے کی تمنا کرتا ہے بس عوام خان اسی خیال سے جاگتا ہے کہ شاید اس بار وہ جیت جائے جمہوری پری کو کوئی دیو نہ اٹھائے، عوام خان کی آنکھیں جمہوری پری کے حسن سے خیرہ ہوں نہ ہوں دیو سے وہ بہت ڈرتا ہے اسی لئے جب دیو غالب آتا ہے تو وہ سانوں کیہہ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب عوام خان، بیگانگی کا شکار ہو سانوں کیہہ کہہ کر کندھے اچکائے تو یہ ریاست کے لئے اچھا شگون نہیں ہوتا۔ ریاست کی طاقت عوام ہی ہوتے ہیں یہی بیگانگی مشرقی پاکستان میں آئی تھی اور پھر اس کا نتیجہ علیحدگی میں نکلا۔ بیگانگی دراصل مایوسی اور شکست کی ایک شکل ہے اس سے اگلا درجہ نفرت اور پھر آخری درجہ بغاوت کا ہوتا ہے۔ صد شکر کہ عوام خان لسی نوش ہیں،’’ سانوں کیہہ‘‘ کے فلسفے کے پیروکار ہیں مگر تلخ واقعات بار بار ہوں غیر منصفانہ فیصلوں کا انبار ہو، جانبداری کا راج ہو، حقوق سے انکار کیا جائے تو پھر بیگانگی کی چنگاری کسی بھی وقت بھڑک کر نفرت اور پھر بغاوت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

عوام خان اور ریاست کا رشتہ ماں اور بچوں کا ہے ماں پیار کرے تو عوام بھی پیار کرتے ہیں لیکن اگر ماں سوتیلوں والا سلوک کرے تو یہی عوام ماں کے خلاف بھی ہو جاتے ہیں۔ انصاف خان اور عسکری خان طاقتور ہوں تو انہیں عوام خان کو اس قدر نہیں دبانا چاہئے کہ وہ بیگانگی اختیار کرلیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے انتخابات کچھ اور کریں نہ کریں عوام خان کی ریاست سے بیگانگی کو بڑھا دیں گے وہ ہار مان لے گا اور کندھے اچکا کر کہے گا، سانوں کیہہ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے