شادی ہی تو ہے

ایک شادی ہونے والی ہے۔یہ شادی اسلام آباد میں بھی ہو گی۔ لاہور میں بھی۔ میاں چنوںمیں بھی۔ باقی شہروں کا مجھے پتہ نہیں۔ایسا نہیں کہ اس شادی میں مجھے کسی نے بلایا نہیں۔ میں اس قابل ہی نہیں کہ بلایا جائوں۔صرف ایک دلہن ہے۔ ایک دولہا ہے۔ متاثرین ان گنت ہیں۔ معلوم نہیں کتنے عزت مآب حضرات و خواتین متاثرین میں شامل ہیں؟ متاثرین میں یہ عاجز بھی شامل ہے۔ ایسا نہیں کہ میں شادی والے گھر سے متاثر ہوں۔ ایسا ممکن ہی نہیں‘ کیونکہ مجھ پر جو گزر رہی ہے‘ اس کا تعلق صرف ایک شہرسے نہیں۔ ایک عدالت سے نہیں۔ ایک پولیس آفس سے نہیں۔ اس شادی کے متاثرین کے لئے ایک چینل نے خصوصی نشریات کا آغاز کر دیا ہے۔باقی چینلز میں نے دیکھے نہیں۔صفحہ اول کے ایک اینکر بلاتوقف چھ سات اینکر کی ایک ٹیم کے سربراہی کرتے ہوئے ‘اس عظیم الشان شادی کی نشریات کی قیادت کر رہے تھے۔

دوسرے بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ہر اینکر ایک دوسرے سے بڑا تھا اورہر ”اینکرا‘‘پوری ٹیم میں سب سے نمایاں تھیں۔

آج ایک عوامی نمائندہ سپریم کورٹ میں حاضرہوا۔ معزز جج صاحب اور ایک معزز سیاست دان ایک دوسرے کے روبرو تھے۔جج صاحب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی کرسی پر رونق افروز تھے اور دوسری طرف ایک سیاست دان ۔رتبہ ان کا بھی کسی سے کم نہیں؟جج صاحب ان سے کسی تاریخ پر تشریف لانے کی ”فرمائش‘‘ کر رہے تھے اوریہ کہہ بیٹھے کہ آپ زیرغور مقدمے میں شریک ہونے کے لئے فلاں تاریخ کو حاضر ہو جائیں‘ جس پر سیاست دان نے جج صاحب کو بتایا کہ میں اس تاریخ پر مصروف ہوں۔ آپ ہی میرے شیڈول کے مطابق کوئی تاریخ دے دیں۔ جج صاحب نے خالی تاریخ دیکھی‘ جس میں ملزم صاحب فارغ ہوں۔ان کی مرضی کے مطابق تاریخ دے کر شادی کی تاریخ آسان کر دی۔

میں مذکورہ شادی کے پروگرامز کی تفصیلات میں غوطہ زن تھا‘جس شادی کی تفصیلات مجھے درکارتھیں‘ اس میں صرف دو فریق ہی شریک تھے۔ ٹیلی ویژن پر ایک نظر ڈالتے ہی میں اس معاملے میں بنا بلائے شریک ہو گیا‘کیونکہ میں اپنے گھر بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اور ایک بہت بڑے قومی مسئلے میں پیرپھنسا بیٹھا اور وہ بھی بغیر کسی موزے کے۔

شادی کا مسئلہ ہوتا کیا ہے؟ ایک لڑکا۔ ایک لڑکی۔مجھے تو دونوں کی عمروں کا اندازہ نہیں تھا۔ میری بلا سے کہ یہ نادیدہ جوڑا برابر کی عمروں کا تھا یا جوڑے کی ایک ہی عمر تھی۔ یا دونوں چھوٹے بڑے تھے۔ مجھے اس میں دلچسپی بھی نہیں تھی۔ میری دلچسپی شادی کے بڑھتے ہوئے پھیلائو میں تھی۔ ایسی شادیاں برصغیر میں بہت ہوئی ہیں۔ مثلاً پنڈت نہروکی شادی ہوئی۔ قائداعظمؒ کی شادی ہوئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ہوئی(ہوئی بھی یا نہیں)۔ مجھے بھلا کسی کی شادی سے کیا واسطہ؟ مجھے تو اپنی شادی سے بھی واسطہ نہیں۔ دلچسپی اس بات کی ہے کہ ہزاروںخاندانوں کے منتظمین پورے پاکستان کے معمولات کو درہم برہم کر رہے تھے۔

میں اپنے گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔یہ شادی دوگھرانوں‘ دو خاندانوں‘ دو شہروں‘دو ہونے والی بہوئوں یا دو ہونے والی ساسوں یا دوہونے والے سسروں تک محدود رہتی تو بھی خاص بات نہیں تھی لیکن یہ شادی تو آدھے پاکستان کو درہم برہم کرنے پر تلی تھی۔دونوں معزز ترین خاندانوں کے وفود واپڈا والوں کواس ایک شادی کے مطابق‘ معلوم نہیں کتنے روزو شب کے لئے ‘بجلی کا پروگرام طے کر رہے تھے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ دوشہروں اور دو دیہات کا معاملہ نہیں تھا۔اللہ ہی جانتا ہے یہ دوشادیاں صرف کتنے شہروں میں یا کتنے گھروں کو متاثر کررہی تھیں؟ آج کل تو پانی کا مسئلہ بھی زبردست ہے۔ ہر شہر سے مدعو کئے جانے والے ہر خاندان سے پوچھا جا رہا تھا کہ ان کے ہاں کتنے مہمان آئیں گے؟ صاف پانی تو ملتا نہیں۔یہ بھی تکرار کر کے پوچھا جا رہا تھا کہ آپ کے ہاں کتنے مہمان آئیں گے؟ اور ان کے لئے ہم کتنے صاف پانی کا انتظام کریں؟ آپ کے نل میں کیسا پانی آتا ہے؟ ہمارے نل سے پانی میں کالے لچھے آتے ہیں۔ کیا آپ لچھوں کے عادی ہوئے؟ یا ابھی تک صاف پانی پینے والے قدامت پرستوں میں شامل ہیں۔ ایک ضعیفہ اپنی ٹکر کی ضعیفہ سے پوچھ رہی تھی کہ ”بی بی میں صرف تانبے کے گلاس میں پانی پیتی ہوں۔قلعی زیادہ پرانی نہ ہو۔ دوچار ہفتے پرانی ہو تو کوئی بات نہیں‘‘۔

اب یہ قصہ قدرِ طویل ہے۔مگر آپ جانتے ہیں کہ شادی کے قصے کہانیاں جتنے بھی مختصر ہوں‘ دوچار ہفتے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بج گئی۔ دوسری طرف کوئی اجنبی صاحب تھے۔انہوں نے پوچھا ” آپ کے ہاں شادی کس کی ہو رہی ہے؟‘‘

”مجھے کیا پتہ؟‘‘

” لڑکی کی ہو رہی ہے یا لڑکے کی؟اور آپ کی دلچسپی کس میں ہے؟‘‘

” مجھ ستر سال کے بیاہے ہوئے کی کیا دلچسپی؟‘‘

”ویسے ‘ خیر کوئی پچاس ساٹھ سال کی ہو تو جوڑا بن سکتا ہے‘‘۔

”لعنت ہے خڑوس‘‘ اور ٹھک سے بند کر دیا ۔

مذکورہ شاد ی کا بھگتان میرے گلے میں آپڑا۔اسے چھوڑنے کو تو دل نہیں چاہتا ہے۔ مگر چاہتا بھی ہے۔فرصت ہوئی تو اس قصے کا اگلا حصہ بھی لکھ دوں گا اور طبیعت بیزار ہوئی تو بھی لکھ دوں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے